Ticker

6/recent/ticker-posts

کرونا خطرات، حکومتی اقدامات اور عوامی رویے

Threats, government actions and public behavior

تحریر جام ایم ڈی گانگا
بلاشبہ حکومت اور انتظامیہ اپنے تئیں کرونا وائرس کے حوالے سے آگاہی مہم، حفاظتی انتظامات، اور دستیاب سہولیات کے مطابق علاج معالجے کے لیے مصروف کار ہے. کرونا کے خطرات اور بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دینے میں میں سمجھتا ہوں کہ کوئی کمی نہیں ہے. ہماری انفرادی اور اجتماعی سوچ اور رویوں میں جو خامیاں و خرابیاں ہیں ان کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور مختلف وجوہات کی وجہ سے مزید متوقع ہے.ایران تفتان بارڈر یا دوسرے ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کی شروع شروع میں سختی سے سکریننگ اور قرنطینہ نہ کرنا حکومتی غیر ذمہ داری تھی جس کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں. اس بڑی حکومتی غلطی کے بعد حکومت کا، اداروں کا اور عوام کا غلطیوں کو جاری رکھنا انتہا کی حماقت اور اپنے آپ کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے. ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم جس طبقے اور جس کلاس سے بھی تعلق رکھتے ہیں احتیاطی اور حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے. بار بار کی تنبیہ کے باوجود ایسی خطرناک وباء سے بچاؤ کے لیے بھی اگر پولیس رینجر اور فوج آ کر عمل درآمد کروائے تو پھر یہ بے شعوری کا عالم مدہوشی ہے. ایسی قوم کے حکمران بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے ہم بھگتتے چلے آ رہے ہیں. میں اس حوالے سے مزید کچھ اس لیے نہیں کہنا چاہتا کہ موضوع اور حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے
میں اپنے ایک کالم میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کرونا کا سب سے زیادہ خطرہ سرائیکی وسیب کے اضلاع کو ہے. اس وبا کا مرکز خواہ کوئی صوبہ اور ضلع بن جائے یاد رکھیں ہم میں سے کوئی بھی خطرے سے خالی نہیں ہوگا. ہمیں ہر وقت اللہ سے استغفار کرنے اس کی رحمت اور پناہ مانگنے رہنے کے ساتھ ساتھ اس چیلنیج سے نمٹنے کے لیے کسی بھی قسم کی غلطی کوتاہی لا پرواہی کیے بغیر مقابلہ کرنا ہوگا.اس وبا سے لڑنا،اکیلا حکومت، انتظامیہ اور اداروں کا کام نہیں ہے.علاج کے انتظامات اور سہولیات کی فراہمی حکومت کا کام ہے لیکن احتیاط، حفاظتی تدابیر اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنا عوام کی ذمہ داری ہے
عباسیہ ٹاون رحیم یار خان کی شمیم بی بی کرونا سے وفات کے بعد حسن کالونی کے رہائشی میڈیکل ریپ محمد اکرم بھٹی اور ان کی فیملی میں کرونا وائرس پائے جانے کی خبر نے خطرے کی گھنٹی کے بعد گھڑیال بجا دیا ہے. ابھی تو  لوگوں ان آبادیوں اور ان خاندانوں سے میل میلاپ رکھنے والوں کے ٹسٹ نہیں ہوئے. یقینا بہت سارے اور لوگ بھی متاثر ہو چکے ہوں گے. بغیر سکریننگ کراچی سے سرائیکی وسیب اور ضلع رحیم یار خان میں آنے والے خاندان بھی میرے نزدیک ہنوز ایک بڑا خطرہ ہیں.بستیوں کی بستیاں ہیں ایسے لوگوں کی. ہو سکے تو میڈیکل کی ایک موبائل ٹیم شیڈول کے تحت ایسے علاقوں میں جا کر لوگوں کی سکریننگ اور چیکنگ کر ے جہاں کثیر تعداد میں لوگ آئے ہیں. جیسے محمد پور گانگا، گانگا نگر یوسف آباد،فتح پور قریشاں،میانوالی والی قریشیاں مصطفی آباد، وغیرہ ہیں بلاشبہ ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد اور ڈی پی او منتظر مہدی نے ضلع میں مثالی انتظامی اقدامات کیے ہیں.خاص طور پر گھر بیٹھے فون پر سودا سلف کی خریداری کی سہولت بہم پہنچانا یقینا ان کی محدود رہو محفوظ رہو سلوگن کے حوالے سے بہترین کاوش ہے.ڈپٹی کمشنر علی شہزاد مثبت سوچ اور کھلے دل و دماغ کا مالک ایسا آفیسر ہے جو اچھے مشورے اور تجویز کو سننا اور اس پر فوری عمل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا سنا ہے کہ آپ شاعر ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ حساس بھی ہیں لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور احساس بھی کرتے ہیں جو ان کی روزمرہ کی انتظامی سرگرمیوں میں نظر بھی آتا ہے

یہ بھی پڑھیں : کروناواٸرس اور میری شاعری

محترم قارئین کرام، ضلع رحیم یار خان میں 3500کے لگ بھگ افراد کی سکریننگ ہو چکی ہے یہ سلسلہ جاری ہے ضلع کے معروف مخیر حاجی محمد کبریا  کو سلام پیش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان کو 400کرونا ٹسٹ کیٹس فراہم کر دی ہے مزید 400آنے والی ہے. یہاں کے کیسز ٹسٹ کے لیے ملتان اور لاہور بھیجے جاتے تھے. جن کے زرلٹ میں تاخیر کا سامنا تھا. پیرا میڈیکل سٹاف سے تعلق رکھنے والے احمد خان رند بھی زندہ دل اور جی دار انسان ہیں. اپنی نوکری کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کے حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں. آجکل وہ ڈاکٹرز، نرسیزسمیت ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے والے دیگر سٹاف کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے بھی جائز مطالبات پیش کرنے میں سوشل میڈیا پر پیش پیش نظر آتے ہیں. بلاتفریق سب کے لیے بولنے والے اور کچھ نہ کچھ کرنے والے لوگ یقینا عظیم اور مجاہد ہوتے ہیں.ہسپتال کے ڈاکٹرز اور دیگر کے لیے حفاظتی کیٹس اور سامان از حد ضروری ہے. حاجی محمد کبریا کی طرح کچھ اور مخیر حضرات کو بھی ہسپتال میں ضروری چیزوں کی کمی کو دور کرنے کے لیے آگے آنا چاہئیے. یہ بہت بڑی کارخیر ہے.ہسپتال کی خراب مشنوں کو ٹھیک کروا دیں. جن مشینوں کی کمی ہے وہ لے کر دی جائیں تاکہ خلق خدا کے علاج میں سہولت ہو جائے. یہ صدقہ جاری ہے.صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت شیخ زاید ہسپتال کے مسائل فورا حل کروائیں. مطلوبہ ساز و سامان فراہم کروائیں. تین صوبوں کے سنگھم پر واقع یہ ہسپتال زیادہ حقدار ہے. وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کی این جی او مخدوم رکن الدین ویلفئیر ٹرسٹ کو بھی میدان عمل میں آنا چاہئیے. خدمت خلق کا اس سے بڑھ کر اور کونسا وقت اور موقع ہوگا .لاک ڈاون سے متاثرہ لوگوں میں راشن کی تقسیم بھی اچھا عمل اور وقت کی ضرورت ہے. ضلع رحیم یار خان کے پارلیمانی سیاست دانوں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سردار ممتاز چانگ سب سے پہلے میدان میں اترے. توقع اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاستدانوں میں راشن کی تقسیم کا یہ سلسلہ بڑھے گا
سرمایہ داروں میں حاجی محمد ابراہیم چھپ چھپ کر خرچ کرنے والے انسان ہے.نیکی کی ترغیب کی نیت سے دکھا کر دینےمیں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ بعض اوقات اس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اس طرح کے عمل میں شریک ہو سکیں.روشن کی تقسیم میں حفاظتی اقدامات و تدابیر پر سختی سے عمل کیا جانا چاہئیے تاکہ ملک و قوم کو لاک ڈاون کے مقاصد حاصل ہو سکیں. ایسے حالات میں بھی ذخیرہ اندازی اور بلاوجہ مہنگائی کرنے والے انسان کے روپ میں حیوان اور بھیڑیئے ہی ہو سکتے ہیں. ان کے لیے اللہ تعالی ہدایت کی دعا کریں اور دوا کے طور پر ایسے حرام خوروں کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کریں.سوشل میڈیا پر انہیں بے نقاب کریں
سرائیکی وسیب کے دوسرے اضلاع کے ساتھ ساتھ ضلع رحیم یار خان میں کرونا کیسز کی تعداد میں اضافے کے یقینی خطرات موجود ہیں. گبھرانے ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی بجائے ہمیں مزید زیادہ احتیاط اور حفاظتی تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے. ضلعی انتظامیہ کرونا مریضوں کے رہائشی علاقوں خاندانوں اور حلقہ احباب کو خصوصی اور ہنگامی طور پر سکریننگ اور چیکننگ کے عمل سے گزارے. کہیں ایسے نہ ہو کہ یہ اندھی اور بے رحم وباء چپکے چپکے سے پھیلتی چلی جائے.ان علاقوں کے عوام سختی سے سیلف آئسولیشن اور قرنطینہ کریں.یاد رکھیں اس وباء کو استغفار کے ورد اور احتیاط احتیاط احتیاط کرکے عوام ہی شکست دی سکتی ہے. گھر بیٹھ کر بھاپ لیں، گرم پانی سے غرارے کریں، نیم گرم پانی پئیں، صابن سے ہاتھ دھوئیں، نماز اور قران مجید ترجمہ تفسیر سے پڑھیں. اللہ تعالی کرم کرے گا حالات بہت جلد ٹھیک ہو کر نارمل ہو جائیں گے. اس کے باوجود بھی ہم سب کو یہ پورا سال محتاط ہو کر گزارنا پڑے گا. اسے ہی صبر اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا کہتے ہیں

یہ بھی پڑھیں : اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو لڑکی نے اسلام قبول کر لیا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent