Ticker

6/recent/ticker-posts

آیاصوفیہ مسجدکی بحالی

Is the restoration of Sofia Mosque?

تحریرڈاکٹرنذیراحمد صدیقی
دس جولائی کو ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت کونسل آف سٹیٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے جس میں اتاترک کمال کے 1934کے فیصلے کو کلعدم قرار دیتے ہوئے " آیا صوفیہ "میں قائم کیے گئے میوزیم کو ختم کر کے اسے دوبارہ مسجد بنانے کا حکم دیا گیا ہے اس عدالتی فیصلے پر فوراً ہی دستخط کر کے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے چھٹے سن عیسوی میں بننے والی اس عظیم الشان عمارت میں چودھویں صدی عیسوی تک عیسائیوں کا چرچ رہا تاہم پندرویں صدی عیسوی میں جب ترکی میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی تو چرچ کی جگہ یہاں عظیم الشان مسجد بنا دی گئی جو پانچ سو سال تک قائم رہی تاہم جنگ عظیم اول میں شکست کے بعد جب اتاترک کمال نے ترکی کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا فیصلہ کیا تو پورے ملک سے اسلام کی نشانیوں کو مٹاتے ہوئے" آیا صوفیہ" کوبھی مسجد سے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ ترکوں کے دل میں " آیا صوفیہ" ایک مسجد ہی رہی اور اس کی بحالی کا وہ کبھی کھلے عام اور کبھی مبہم انداز میں مطالبہ بھی کرتے رہے کیونکہ" آیا صوفیہ"  کو ترک قوم اپنے عروج کے دور کی ایک یاد گار سمجھتے ہیں خلافت عثمانیہ کی پانچ صدیوں تک دنیا کے تین بر اعظموں ایشیاء،یورپ اور افریقہ کے بہت سارے علاقوں پر حکمرانی رہی یہی وجہ ہے کہ ترک قوم آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کی شدید خواہش مندنظر آتی ہے

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹرملک منیرحسین کلوبطورہردلعزیزآفیسر

موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنے شہریوں کے ساتھ" آیا صوفیہ"  کی بحالی کا وعدہ کیا تھا جس کی تکمیل کے لیے وہ گزشتہ کئی سالوں سے ترکی کو مضبوط اور مستحکم کرتے کرتے آج اس مقام پر پہنچے ہیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں چلنے والے مشہور ڈرامے غازی التغرل کا مقصدبھی ایک لحاظ سے یہی ہے کہ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی عظمت کو نمایاں کیا جائے اور مناسب وقت آنے پر اس کی بحالی کی کوشش کی جائے جنگ عظیم اول میں تر کی کی شکست اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعدعالمی طاقتوں سے ہونے والے معاہدے کے مطابق ترکی 2023کے بعد اپنی سابقہ حیثیت بحالی کر سکتا ہے اس لیے اگر طیب اردگان کے فیصلوں اور پالیسیوں کو جانچا جائے تو ان سب کا ایک ہی مقصد نظر آتاہے کہ ترکی اپنی نشاط ثانیہ کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح سے تیار کر رہا ہے آج کا جدید ترکی مالی طور پر خوشحال ، فوجی لحاظ سے مضبوط اور جمہوری لحاظ سے بھی مستحکم ملک بن چکا ہے
عالمی معاملات میں ترکی کی دلچسپی پوری دنیا کے سامنے ہے ماضی میں ترکی‘ امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے اس کے علاوہ یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے بھی ترکی نے پوری کوشش کی ہے لیکن ترکی کے اسلامی پس منظر کے پیش نظر یورپی یونین نے ترکی کو اپنا ممبر نہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ تر کی میں فوجی حکمرانوں کی جگہ لینے والے طیب اردگان نے پہلے اپنے ملک میں سیاسی نظام کو مستحکم کیا،پھر معیشت اور فوجی طاقت کو مضبوط کیا اور اب روس اور چین کے ساتھ ملکر عالمی سطح پر ایک اہم طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے ترکی اور پاکستان کے مابین قریبی تعلقات بھی ترکی کی طاقت کا راز ہیں کیونکہ پاکستان خود بھی فوجی لحاظ سے ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہے تر کی کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی خوشگوار ہیں آجکل ترکی‘ روس کے ساتھ ملکر شام میں امن لانے کی کوشش کر رہا ہے جو اسرائیل کو قطعاً ناپسند ہے ترکی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت بھی امریکہ اور خاص طور پر اسرائیل کے لیے پریشان کن ہے فلسطین یا کشمیر یا دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو آج کا جدید ترکی پوری اسلامی دنیا کی قیادت کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ بات ان عرب ریاستوں کو خاص طورپر پسند نہیں ہے جو کسی زمانے میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے دائرہ اثر میں تھیں اوراب اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کی قیمت پر سمجھوتے کرچکی ہیں
ترکی کے اس فیصلے کو مغربی ممالک سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ اسے سلطنت عثمانیہ کی بحالی کے پہلے قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں اس کے علاوہ ماضی میں چرچ رہنے والی اس عمار ت میں مسجد کی بحالی بھی ان سے ہضم نہیں ہو رہی یہ مغر ب کا دہراطرز عمل ہے یوروشلم میں موجود مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی ہو یا اس کی جگہ تھرڈ ٹیمپل بنانے کا اسرائیلی منصوبہ‘ مغرب ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آتا ہے اسی طرح سینکڑوں سال پرانی بابری مسجد گرا کر وہاں رام مندر بنانے کا بھارتی سپریم کورٹ فیصلہ دے تو بھی مغر بی ممالک خاموش رہتے ہیں جس کا مقصد ان کی تائید ہی لیا جاسکتا ہے اوراب جب ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت نے سو سال بعد"آیا صوفیہ" کی پانچ سو سال پرانی حیثیت کی بحالی کا حکم دیا ہے تو اس پر تنقید کرنا مذہبی تعصب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے مغربی ممالک جب اپنی عدالتوں پر فخر کرتے ہیں تو پھر دوسری اقوام کی عدالتوں پر کس طرح تنقید کر سکتے ہیں پریشانی یہ ہے کہ مغر بی ممالک مسلمانوں کو تو نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہودیوں اور ہندوؤں کو ترجیح دیتے ہیں جس کے باعث اسلامی اور مغربی دنیا کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں اگر دنیا میں امن اورمساوات قائم کر نی ہے تو دنیا بھر کی قوموں کو اپنی مذہبی عینک اتار کر صرف انسانیت کی عینک پہننی ہوگی بصورت دیگر مذہب کے نام پر نفرت اور قتل گری کا بازار گرم رہے گا جو نہ تو اسلامی دنیا کے حق میں ہے اور نہ ہی مغربی دنیا کے حق میں ہے بلکہ اس کا سارا فائدہ اسرائیل اور بھارت جیسے مذہبی انتہا پسند ممالک اٹھا رہے ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے لیے دوسری قوموں کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ہفت روزہ غالب

موقع کی مناسبت سے میں اپنے ترک بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کا ایک دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہے جو انہوں نے ایک صدی سے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا تھا اس موقع پر میں ماضی کے برصغیر اور آج کے جنوبی ایشیاء میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے تحریک خلافت عثمانیہ کی کامیابی کے لیے اپنے زیور تک پیش کر دیے تھے بر صغیر کے مسلمانوں کی اسلام اور اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے تڑپ آج بھی ترکوں کے دل و دماغ پر نقش ہے۔
آیاصوفیہ مسجدکی بحالی

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent