Ticker

6/recent/ticker-posts

پولیس کپتان کوکرائم رپورٹرصحافی کی تجویز

Crime Reporter's Suggestion to Police Captain

تحریر جام ایم ڈی گانگا

ضلع رحیم یار خان کے معروف کرائم رپورٹر صحافی نور محمد سومرو کا نام سیاسی سماجی انتظامیہ خاص طور پر پولیس کے حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے کراچی کے تین روزہ وزٹ کے بعد واپسی پر سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ پڑھی تو سوچا کہ ملک میں سیلاب کی صورتحال اور گانگا نگر رحیم یار خان سے کراچی تک کے سفر کا حال احوال اور وہاں ہونے والی کچھ ملاقاتوں کا تذکرہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنے سے قبل لا اینڈ آرڈرز اور ضلع میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا کچھ حال حویلہ ہو جائے. میں اپنی بات کرنے سے پہلے محترم سومرو صاحب کی مکمل پوسٹ آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں. لیجئےملاحظہ فرمائیں
 ُ ُجالندھر سوئیٹ مارٹ چوک بہادر پور اور مڈدرباری رحیم یارخان کے ایک گھر میں ڈاکوؤں کی لوٹ مار , فائرنگ سے جالندھر سوئیٹ مارٹ کا گارڈ اور مڈدرباری کی 70سالا صغراں بی بی زخمی ہوئیں وارداتوں کی لہر اور مسلح ڈاکوؤں کا بارونق علاقوں اور شہری آبادیوں میں اس طرح کھلے عام دندناتے ہوئے وارداتیں کرنا پولیس کیلئے لمحہ فکریہ اور عوام کیلئے بہت بڑی پریشانی کا سبب ہے ڈی پی او سید منتظر مہدی اپنی پولیس ٹیم کی کارکردگی اور تھانوں پر نظر رکھیں سب اچھا ہے کہ ریورٹس پر انکھیں بند کر کے یقین نہ کریں بلکہ جہاندیدہ پولیس آفیسر کی طرح اپنے مخبروں کی ٹیم بنائیں جس سے خود رابطہ رکھیں اور گشت کے نظام کو مؤثر بنائیں کہ کیا واقعی گشت ہو رہا ہے کہ نہیں

یہ بھی پڑھیں: شہرقاٸدکی روشنیوں میں مزیداضافہ

محترم قارئین کرام،رونما ہونے والے کرائم کے واقعات بڑے ہوں یا چھوٹے میرے خیال میں اصل بات ان کے پھوٹنے کی ہے کسی بھی بڑے طوفان اور زلزلے سے قبل ان کے آثار آنا اور ظاہر ہونا ضرور شروع ہو جاتے ہیں یہ علحیدہ بات ہے کہ ہر شخص کو ان کا علم اور آگاہی نہیں ہوتی برادر سومرو نے اپنی پوسٹ میں پولیس کے ضلعی کپتان کو ایک مشورہ اور تجویز بھی دان کی ہے کوئی مانے یا نہ مانے مخبر کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی مخبر کے لفظ کو بہت سارے لوگ شاید اچھا نہیں سمجھتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر کردار کی طرح مخبر کا کردار بھی مثبت اور منفی دونوں طرح کا ہوتا ہے مخبر کو محب وطن اعزازی انٹیلی جنس کا نام بھی دیا جا سکتا ہے بہت سارے زمینی حالات و واقعات اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی محکمے، جماعت اور سیاسی شخصیت کے مخبر کو اعزازی عہدے دار،  پارٹنر،اور ملازم کا نام بھی دیا جا سکتا ہے.میرے ضلع رحیم یار خان میں کچھ سیاسیتدانوں نے باقاعدہ تنخوہ دار مخبر رکھے ہوئے ضروریات کے مطابق کچھ ہائیر بھی کر لیتے ہیں کئی صحافی بھی یہ خدمات سر انجام دینے میں سر فہرست ہیں خیر اس وقت ہمیں اس کی مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے یقینا نور سومرو کی تجویز اور مشورہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک سابقہ آزمودہ نسخہ ہے زندگی کے دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نسبت مخصوص صحافی طبقے نے زیادہ بہتر موثر اور تیز مخبر ہونے کا ثبوت دیا ہے مخبر حضرات کو اپنی اعزازی خدمات کے عوض کیا ملتا ہے کتنا ملتا ہے کہاں سے اور کیسے ملتا ہے ان تفصیلات میں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اکثر جرنل باتوں کو سیاق و سباق کو سمجھے بغیر کچھ لوگ خوامخواہ اپنے بارے میں سمجھ لیتے ہیں اور ناراض ہو جاتے ہیں صحافی کا قلم اور اس کا لفظ لفظ بڑا قیمتی ہوتا مگر افسوس کہ دور حاضر میں سچائی کی بجائے خوشامد کا ٹرینڈ اس خطرناک حد تک بڑ چکا ہے کہ لوگ صحافیوں کو بلیک میلر سے بھی زیادہ میراثی کہنے لگے ہیں مقدس صحافت عروج کی بجائے زوال کا شکار ہے کئی اداروں کی کارباری اور کمرشل سوچ نے اسے اپنے اصل مقام و مرتبے سے نیچے گرا دیا ہے اگر ہم صحافتی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جیسے جیسے ایسے رویے غالب ہوتے چلے گئے ہیں صحافیوں کو لوگوں نے معتبر کی لسٹ سے نکال کر بھکاریوں کی لسٹ میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے میں اس سے زیادہ مزید کچھ نہیں لکھنا چاہتا واپس اپنے آج کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں بلاشبہ پولیس ریفارمز کے نتیجے میں پولیس کے ظاہری رویوں میں کافی تبدیلی آئی ہے جرائم میں کمی پیشی کو اگر کوئی صرف پولیس سے جوڑتا ہے تو میں اس سے کسی صورت بھی مکمل اتفاق نہیں کر سکتا پولیس کے علاوہ دیگر انتظامی ادارے بھی ذمہ دار ہیں رحیم یار خان پریس کلب میں ایڈیشنل آئی جی پولیس جنوبی پنجاب انعام غنی نے واشگاف الفاظ میں اس سچائی کو بیان کیا تھا کہ شراب اور دیگر منشیات کے دھندے کو کنٹرول نہ کر سکنے میں پولیس کے ساتھ دیگر ذمہ دار ادارے محکمہ ایکسائز،اینٹی نارکوٹکس وغیرہ کے عدم تعاون کو ایک بڑی وجہ قرار دیا تھا انصاف کی فراہمی کا سسٹم اور جوڈیشری کا بھی اس میں اہم رول ہے جرائم کی کمی بیشی میں سیاست کا بھی بڑا عمل دخل ہے عوامی سماجی رویے اور کردار کو بھی اس سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا معاشرے کے تمام طبقات کی معاشرتی زندگی امن و امان کے قیام میں اپنا اپنا ایک کردار رکھتی ہے مستقل اور پائیدار قسم کے امن و امان کے لیے  ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا دیانت داری سے اپنا اپنا کردار نبھانا ہوگا پولیس میں نہ تو نااہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کی کمی ہے نہ ہی کرپشن اور رشوت خوری میں کوئی کمی آئی ہےکرپشن جاری و ساری ہے نہ رُکی ہے نہ مُکی ہے بس کچھ انداز اور طریقہ ہائے کار بدلے ہیں چوریوں اور ڈکتیوں کی موجودہ لہر بلاشبہ تشویشناک ہے پیارے سومرو بھائی پولیس اہلکاروں اور آفیسران کی پرائیویٹ نگرانی کون اور کیوں کرے بات تو ترجیحات کی ہوتی ہے باقی آپ سمجھ دار ہیں

یہ بھی پڑھیں: شہرقاٸدکی روشنیوں میں مزیداضافہ

آپ کی سمجھ دانی کی تہہ میں حقیقت کے دانے موجود ہیں بلاشبہ مخبری بظاہر آسان کام ہوگا مگر حقیقتا یہ بڑا خطرناک کام ہو چکا ہے چوروں ڈکیتوں جرائم پیشہ گروہوں، مافیاز اور کرپٹ اہلکاروں اور آفیسران کی مخبری گویا ایک طرف جہاد ہے تو دوسری طرف ان کے خلاف لڑنے اور دشمنی پالنے کے مترادف خطرناک کام ہے جرائم پیشہ کی نشاندہی کرنے والے ایکشن ہونے سے پہلے خود نشانہ بن جاتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے اکثر جرائم سرے عام اور ڈنکے کی چوٹ پر دھڑلے سے ہو رہے ہیں بڑے بڑے مافیاز کے بارے میں ایکشن لینے والے اچھی طرح جانتے ہیں ٹائر، کپڑا الیکٹرانکس کے سامان ، ایرانی تیل، گندم وغیرہ کی سمگلنگ کہاں سے،کیسے ہوتی ہے کون کرتا ہے کون کون اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں لوگوں کی جائیدادیں اور زمینیں ہڑپ کرنے والے قبضہ گروپس سے متعلقہ ذمہ دار ادارے، انتظامیہ اور ایجنسیاں ہرگز ہرگز بے خبر نہیں ہیں یہ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری رائج نظام اور سسٹم کا باقاعدہ ایک حصہ ہے ضلع کے بڑے انتظامی آفیسران کے لیے کرائم رپورٹر بھائی کی تجویز ہر لحاظ سے فائدے مند ہے دیانت دار اور قابل بھروسہ مخبر حضرات کی بھرتی سے ان کے لیے معاشرے کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں آسانی میسر آ سکتی ہے بے ایمان اور ہیرا پھیری کرنے والوں کو پکڑنے میں مدد مل سکتی ہے مخبروں کی ٹیم بناتے ہوئے یقینا پولیس کےضلعی کپتان کو بیٹ وائز تعیناتیاں بھی کرنی ہوں گی پھر مختلف شعبہ جات کے ہیڈز مخبر اور چیف مخبر بھی بنانا ہوں گے کیمونٹی پولیس سسٹم سے یہ کتنا مختلف ہوگا اس بارے بھی کوئی ایڈیشنل تجویز و مشورہ دے دیا جاتا تو اچھا تھا ویسے یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ چھوٹے یا بڑے الیکشنز کی آمد آمد کی نوید کے ساتھ ہی جس طرح نماز جنازہ، قل خوانیوں،تیماداریوں اور شادیوں وغیرہ میں سیاست دانوں اور ان کے منشی موشدیوں کی شرکت پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے اسی طرح چوریوں اور ڈکتیوں کی شرح میں بھی خاصا اضافہ ہو جاتا ہے سابق ڈی ایس پی عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ اس پر بہتر لکھ سکتے ہیں کچھ عرصہ قبل ریٹائرڈ ہونے والے ڈی ایس پی خالد مسعود بھٹی جنہوں نے تازہ تازہ لکھنا شروع کیا ہے انہیں چاہئیے کہ وہ اس حوالے سے اپنے مشاہدے اور تجربے کو عوام کے ساتھ ضرور شیئر کریں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent