Ticker

6/recent/ticker-posts

کسانوں کاامتحان،گنےکےکاشتکارمتوجہ ہوں

Farmers' test, sugarcane growers pay attention

تحریر جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام،ریجنل ڈائریکٹر انٹی کرپشن ایسٹیبلشمنٹ بہاول پور ریجن بہاول کی جانب سے گذشتہ دنوں میں شائع ہونے والا یہ اشتہار یقینا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لگا ہوگا وطن عزیز کے ایک بہت بڑے مافیا شوگر مافیا کے خلاف موجودہ حکومت یقینا پہلی حکومت ہے جس نے ان کے خلاف وسیع پیمانے پر اور گہرائی کے ساتھ تحقیقات کروائی ہیں اعلی عدلیہ نے بھی شاید پہلی بار استقامت کے ساتھ شوگر مافیا کو ماضی کی طرح ریلیف دینے سے گریز کرتے ہوئے تحقیقاتی اور احتسابی اداروں کو قانون کے مطابق اپنا کام اور کاروائی جاری رکھنے کے احکامات صادر کیے ہیں گنے کی ریکوری اور مٹھاس کے مطابق گنے کے ریٹ کا تعین کرنے کا کیس کئی سالوں سے سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے مزید بات کرنے سے قبل میں ڈائریکٹر انٹی کرپشن بہاول پور کے اشتہار کا مکمل متن آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ بات اور معاملے کو سمجھنے میں آسانی رہے
گنے کے کاشتکار متوجہ ہوں بہاول پور ریجن ڈویژن میں آنے والے اضلاع بہاول پور، بہاول نگر رحیم یار خان کے گنے کے کاشتکاروں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سال 2017,2018,2019میں جن کاشتکاروں نے ڈویژن ہذا میں واقع شوگر ملز کو گنا سپلائی کیا ہےاور ان سالوں میں اگر شوگر ملز انتظامیہ نے سرکاری ریٹ سے کم رقم ادا کی ہے یا وزن میں غیر قانونی کٹوتی کی ہے یا اس کی ادائیگی نہیں کی تو وہ کسان اپنی شکایات بمعہ شناختی کارڈ دفتر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن بہاول پور ریجن یا اپنے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے دفاتر میں جمع کروا سکتے ہیں تاکہ ان کی قانونی داد رسی کی جا سکے فوکل پرسن برائے رابطہ راشد مقبول اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل اینٹی کرپشن بہاول پور ریجن بہاول پور آفس نمبر 0689250304,موبائل نمبر 03008773175

یہ بھی پڑھیں: ظالم کی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم

 محترم قارئین کرام،جو طبقہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرے گا، غلطیاں کرے گا اپنا اپنے طبقے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرے گا اپنے مسائل کے حل کے لیے خود جستجو نہیں کرے گا لوٹ مار، استحصال اور زیادتی کی صورت میں آواز نہیں اٹھائے گا مزاحمت نہیں کرے گا وہ یقینا مار کھائے گا نقصان اٹھائے گا مافیاز کا شکار اور کھاج بنتا رہے گامذکورہ بالا اشتہار اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کاروائی کے بعد یقینا کسان پچھتائے گا شوگر ملز کی جانب سے عدم ادائیگی کے سوا وہ کسی دوسری زیادتی کو ہرگز ثابت نہیں کر سکے گا یوں شوگر مافیا کو ایک کلین چٹ مل جائے گی. لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی انہیں گنے کا ریٹ کم نہیں ملا یا وزن میں غیر قانونی کٹوتی نہیں کی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ وزن میں کٹوتی کا کسانوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ وزن میں کٹوتی سوائے بندھن والی کٹوتی کے اور کوئی کٹوتی سی پی آر پر درج نہیں کی جاتی جہاں تک گنے کا کم ریٹ دینے کا تعلق ہے کسی کسان کو اپنے پرمٹ پر شوگر ملز سے کم ریٹ ہرگز نہیں ملتا کم ریٹ پر لیا اور دیا جانے والا گنا دو جگہوں پر بکتا ہے کنڈوں پر بکتا ہے جو شوگر ملز کسان کے پرمٹ پر نہیں کنڈوں والوں کے اپنے مخصوص بروکرز پرمٹ پر شوگر ملز جاتا ہے دوسرا شوگر ملز کے مقرر کردہ اپنے مخصوص ایجنٹ کے پرمٹ پر شوگر ملز جاتا ہے جو چیز دوسروں کے کھاتے میں اور دوسروں کے نام پر شوگر ملز جائے گی اسے کسان کاشتکار کے لیے ثابت کرنا مشکل ہے. اینٹی کرپشن، ایف آئی اے یا نیب وغیرہ کے پاس اس لوٹ مار ہیرا پھیری، استحصال اور زیادتی کو پکڑنے کا میرے نزدیک ایک ہی کارآمد طریقہ ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا حکومتی ادارے شوگر ملز کے ریکارڈ کو قبضے میں لےکر ہر کاشتکار و زمیندار کی جانب سے آنے والے گنے کا ریکارڈ اور دی جانے والی پیمنٹ کا ریکارڈ چیک کریں پھر اس کاشتکار اور زمیندرار کی گنے کی کاشت کاریکارڈ اور موقع چیک کریں آیا اس نے گنا کاشت بھی کیا ہوا ہے یا نہیں جن لوگوں کی نہ زمین ہے اور نہ ہی انہوں کسی جگہ ہر گنے کی کاشت کر رکھی ہے تو پھر لاکھوں کروڑوں روپے کا گنے انہوں نےکہاں سے کاٹ کر شوگر ملز کو فروخت کیا ہےاس طریقے سے کم ریٹ پر گنے لینے والے بروکرز اور شوگز ملز کے ایجنٹ پکڑے جائیں گے وزن میں کٹوتی کرنے والی اور کم ریٹ دینے والی شوگر ملز تقریبا شوگر ملز نے کسانوں گنے کی ادائیگیاں بھی کر دی ہیں کم ازکم ضلع رحیم یار خان میں تو ایسی کوئی شوگر ملز نہیں ہوگی جس نے ابھی بھی کسانوں کے پیسے روک رکھے ہوں البتہ دوسرے اضلاع کے بارے میں میں کچھ نہیں کہ سکتا بہاول نگر اور اپر پنجاب کی کئی شوگر ملز کا اس حوالے سے ریکارڈ یقینا خراب رہا ہے دراصل میرے نزدیک سب سے بڑی خرابی شوگر انڈسڑی میں اجارہ داری ہے.شوگر انڈسٹری کو اوپن کیا جائے بھارت کی طرح چھوٹے چھوٹے شوگر یونٹ لگانے کی عام اجازت دی جائے یا پھر سرے سے شوگر انڈسٹری کو قومی تحویل میں لے کر حکومت خود چلائے ملک میں شوگر مافیا ایک خطرناک اژدھے کا روپ دھار چکا ہےجو کسانوں کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر انڈسٹریز کو بھی خاصا نقصان پہنچا رہا ہے کاٹن انڈسٹری جس کی بڑی مثال ہے. ملک اور ملکی معیشت کے لیے کاٹن کی اہمیت گنے سے کئی گُنا زیادہ ہے قومی معیشت کے سدھار اور حقیقی قومی ترقی کے لیے زراعت اور کسانوں کو فوکس کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا کسانوں کو کسی اور حکومت نے اتنی توجہ نہیں دی موجودہ حکومت کی گندم خریداری پالیسی سراسر کسانوں کے استحصال کا باعث ثابت ہوئی ہے قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے باہر کے ممالک سے گندم روئی اور چینی منگوانے والے حکمران اپنے کسانوں کو ریلیف دیں اپنی زراعت کو بہتر کرنے والی پالیسیاں اختیار کریں نہ کمیشن اور گھپلہ سیکموں کے ذریعے ملک و قوم کے دوہرے نقصان کا باعث بنیں بہرحال موجودہ حکومت کا شوگر مافیا کے خلاف ایکشن لینا اور تحقیقات کروانا قابل ستائش عمل ہے رہی نتیجے کی بات تو اس کے ذمہ دار کسانوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز ہیں جو اربوں روپے کھانے اور ڈکارنے والے شوگر مافیا کو پوری طرح پکڑ نہیں پا رہےشاید اس کی وجہ ہمارا نیا نویلہ کمزور احتسابی نظام بھی ہے
محترم قارئین کرام،اس تمام تر صورت حال اور ٹرائل کے بعد مجھے تو گنے کے کاشتکاروں کا مستقبل بڑا عجیب و غریب سا لگ رہا ہے شوگر مافیا اپنی تمامتر طاقت اور توانائیوں کے ساتھ انہیں ایک بار پھر ذلیل و خوار کرے گا اور لوٹے گایقینا استحصال کا آغاز کرشنگ سیزن کے آغاز میں تاخیر کرنے سے شروع کرے گا.گنےکے سرکاری ریٹ میں اضافے کی راہ میں رکاوٹیں جاری رکھے گا اضافے کی صورت میں اسے قبول نہ کرنے اور احتجاجا شوگر ملز چلانے میں تاخیر کو مزید طول دے گا سیزن کو محدود کرکے کسانوں کو آزمودہ اور کامیاب نفسیاتی دباو کے تحت لوٹے گا ایک کسان کارکن کی حیثیت سے میں اپنے سابقہ تجربات و مشاہدات کو سامنے رکھ کر یہی کہوں گا کہ کسانوں کے پاس شوگر مافیاز کی اندھی لوٹ مار اور استحصال سے بچنے اور باوقار انداز میں اپنے گنے کی فروخت کے لیے انہیں اپنی گنے کی کاشت کو 20سے 30فیصد کم کرنے کی ضرورت ہے اگر کاشت کم کرکے کسان ایک طرف اپنی گنے کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے اور دوسری جانب بہتر ریٹ پانے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے یہ راستہ ضرور اپنانا چاہئیے اگر کسان کو دس ایکڑ گنے کی کاشت کے برابر صافی آمدنی سات ایکڑ گنے کی کاشت سے ملتی ہے تو پھر اس پر ضرور غور اور عمل کرنا چاہیئے
آج کے موضوع کے حوالے سے آخر میں پیشگی اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اینٹی کرپشن کے پاس بہت ہی کم درخواستیں آئیں گی باقی متوقع نتیجہ پہلے ہی عرض کر چکا ہوں اللہ تعالی محنت کش کسانوں پر رحم فرمائے اور کسانوں کو اپنے اوپر رحم کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمین

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent