Ticker

6/recent/ticker-posts

داستان تک نہ رہی داستانوں میں

Not even in the story

کبھی کسی بادشاہ کے مقبرے یا قبرستان پر جا کر دیکھیں اور پھر تصور کریں کہ یہ بادشاہ یا یہ لوگ کیسے اپنی زندگی عیش و عشرت سے گزارہ کرتے تھے۔ جن کے ہاں کبھی موت کا تذکرہ تک نہ ہوتا تھا۔ خوشامدوں کی خوشامد میں مگن یہ لوگ زندگی کی رنگینیوں میں ہر دم مگن رہا کرتے۔ پھر یکایک موت کی آندھی چلی اور یہ لوگ روشنیوں سے اندھیری قبر میں اتر گئے۔ اب ان کا کوئی نام و نشان تک موجود نہیں۔ ان کا اچھا برا تذکرہ بس آپ کو تاریخ کے اوراق کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا۔ ان کی بنائی ہوئی سلطنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ جس پر اب غیروں کا قبضہ ہے۔ ایسے ہی دوستو! ہمارا حال بھی ہونے والا ہے۔ ہمارے بنائے گئے مضبوط مکانوں پر ہمارے وارث قابض ہو جائیں گے۔ اور ہم کو چھوٹی سی قبر میں رکھ کر اوپر سے ڈھیروں مٹی ڈال کر رخصت ہو جائیں گے۔ پھر ہم ہوں گے اور ہمارے اعمال۔
ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ہزاروں بادشاہ ملیں گے، جنہوں نے دنیا میں جبر و ظلم کے پہاڑ توڑ کر اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ لیکن آج ان کا نام و نشان تک موجود نہیں اور نہ ہی آج ان کو کوئی اچھے الفاظ میں یاد کرتا ہے۔
آپ سکندر اعظم سے شروعات کر لیجیئے۔ الیگزینڈر بیس سال کی عمر میں مقدوینہ کا بادشاہ بنا۔ دنیا فتح کرنا شروع کی اور اس نے ٣٣ سال کی عمر تک گیارہ ممالک اور ۵٦ لاکھ کلو میٹر علاقہ فتح کر لیا۔ اس کی سلطنت یونان سے شروع ہوتی تھی اور ہندوستان میں ختم ہوتی تھی۔ سکندر یونانی عراق کے شہر بابل میں ١٠ جون ٣٢٣ قبل مسیح میں مر گیا۔ اس کے انتقال کے صرف پانچ سال بعد دنیا میں اس کی وسیع و عریض سلطنت کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔

آپ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی لے لیجیئے۔ چنگیز خان نے دو نئی جنگی اسلوب ایجاد کیں۔ سپیڈ اور تیر۔ منگول ایک مہینے کا سفر ہفتے میں طے کرتے تھے۔ یہ لوگ گھوڑے کی پیٹھ پر نیند پوری کر لیتے تھے۔ دوسرا منگول دنیا کی پہلی فوج تھی جو دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلا لیتی تھی۔ چنگیز خان نے ان دونوں مہارتوں سے آدھی دنیا فتح کر لی۔ اس کی سلطنت چین سے جارجیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ شہر جلانے اور کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا شوقین تھا۔ یہ کھوپڑیاں اور یہ مینار آج بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ ہلاکو خان اس کا پوتا تھا۔ اس نے اپنے دادا کا نام زندہ رکھا لیکن اس کے بعد کیا ہوا۔ ٹوفون تیمر چنگیز سلطنت کا آخری بادشاہ ثابت ہوا اور یوں یہ سلطنت بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئی۔

آپ امیر تیمور کی مثال بھی لے لیجیئے ۔
کیش کے اس ازبک جرنیل نے کمال کر دیا۔ یہ آندھی کی طرح اٹھا، بگولے کی طرح دوڑا اور ٣۵ سال میں دنیا کے ۵٨ ملک فتح کر لئے۔ اس کی سلطنت بھی ثمرقند سے دمشق، سکندریا سے سائبیریا اور ایران سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ جس علاقے کو فتح کرتا تو مساجد کو چھوڑ کر ہر چیز کو آگ لگا دیتا۔ یہ بادشاہوں کا بادشاہ کہلاتا تھا۔ یہ ١۷ فروری ١۴٠۵ء میں فوت ہو گیا۔ امیر تیمور کے بعد اس کی صرف دو نسلیں اس عظیم سلطنت کا بوجھ اٹھا سکیں۔ تیسری نسل کی آمد کے ساتھ ہی امیر تیمور کی پوری سلطنت تتر بتر ہو گئی۔ یہاں تک کہ مزید دو نسلوں کے بعد ظہیر الدین بابر اندیجان سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں : حرمت رسول پرجان بھی قربان ہے

آپ اورنگزیب عالمگیر کی مثال بھی لے لیجیئے ۔
یہ ہندوستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا بادشاہ تھا جس کی سلطنت شمالی ہند سے جنوبی ہند تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ٢١ فروری ١۷٠۷ء میں فوت ہوا اور اس کے انتقال کے چند سال بعد ہی اس کا ہندوستان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا اور یوں یہ سلطنتِ مغلیہ بھی تاریخ میں دفن ہوگئی۔

نادر شاہ درانی تاریخ کا پہلا حکمران تھا جس کے پاس چھ لاکھ ریگولر آرمی تھی۔ یہ باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی۔ اس کی سلطنت بھی ایران سے افغانستان اور انڈیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ ٢ جون ١۷۴۷ء میں نادر شاہ کو خبوشان شہر میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے قتل کے صرف دو گھنٹے بعد اس کی پوری فوج بھی تتر بتر ہو گئی اور اس کا جنازہ تک اٹھانے کے لئے کوئی نہ بچا۔

آپ ہٹلر کو لے لیجیئے۔ 
یہ جنوری ١٩٣٣ء سے اپریل ١٩۴۵ء تک اقتدار میں رہا۔ اس نے ان ١٢ برسوں میں دنیا کے بیس ملک فتح کر لئے۔ ہٹلر نے اس وقت کی دو سپر پاورز کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ لیکن یہ ہٹلر ٣٠ اپریل ١٩۴۵ء کو خودکشی پر مجبور ہو گیا۔ پیچھے رہ گئی سلطنت، تو وہ اس کی موت سے پہلے ہی ڈھیر ہو چکی تھی۔

یہ تاریخ کی چند مثالیں ہیں۔ یہ حکمران تھے جن کا تذکرہ ہم آج صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں۔ جب یہ لوگ نہیں رہے جو کہ طاقت دولت میں ہم سے کئی ہزار گنا بہتر تھے۔ نہ ان کی دولت ان کے کام آئی نہ ہی ان کی طاقتور فوج ان کے کوئی کام آئی۔ ان لوگوں سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیئے۔ ہمیں نہ ہماری دولت بچا سکتی ہے نہ ہی ہماری عزت و طاقت۔ ہاں اگر کچھ بچا سکتا ہے تو وہ ہے ہمارا اچھا عمل۔
دوستو! زندگی کا جو دن نصیب ہو گیا اسی کو غنیمت جان کر جتنا ہو سکے اس میں اچھے اچھے کام کر لئے جائیں تو بہتر ہے کہ ''کل'' نہ جانے ہمیں لوگ ''جناب'' کہہ کے پکارتے ہیں یا ''مرحوم'' کہہ کر ہمیں اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی موت کی منزل کی طرف نہایت تیزی کے ساتھ رَواں دَواں ہیں۔
چُنانچِہ پارہ تیس سورہ اِنشِقاق کی آیت نمبر ٦ میں ارشاد ہوتا ہے:

ترجمہ: اے آدمی! بے شک تجھے اپنے رب (عزوجل) کی طرف ضرور دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا۔

 اَجل ہی نے چھوڑا نہ کسریٰ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک لے کے کیا کیا نہ حسرت سِدھارا
پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

داستان تک نہ رہی داستانوں میں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent