Ticker

6/recent/ticker-posts

شکست،اعتماد کا ووٹ اور سونامی کے بھنور میں غوطے کھاتی عوام

Defeat, vote of confidence and people drowning in the whirlpool of tsunami

تحریر صابر مغل

حالیہ سینٹ الیکشن میں اسلام آباد کی سیٹ ہارنے کے بعد حکومت بھیگی بلی اور پھر وزیر اعظم کی جانب سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر شیر بن گئی ہے حکومتی شکست پر ملک بھر میں جشن منایا گیا حکومتی ہار اور عوامی جشن بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اب ہی اپنی عوام کش پالیسیوں پر نظر ثانی کرے مگر نہیں لگتا کہ اس قدر بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود عوام بارے حکومتی پالیسی میں کچھ لچک نظر آ ئے عمران خان کچھ کر پائیں سینٹ الیکشن سے قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گھی کے نرخوں میں یک لخت 30 فی کلو اضافہ ہوا ساتھ ہی کہا گیا کہ غریبوں کو ریلیف دینے کے لئے ماہ رمضان تک یہی قیمتیں برقرار رہیں گی یعنی دینی فراٸض انجام دینے کے ساتھ ساتھ حکومتی جبر بھی برداشت کرنا ہوگا سمجھ سے باہر ہے سوچ سے بالاتر ہے کہ آخر وطن عزیز میں ہو کیا رہا ہے اس ریاست کی تقدیر کن ہاتھوں میں ہے اور عوام کس نوعیت کی ذلت آمیزصورتحال سے دوچار کس نہج پر پڑی یا کھڑی ہے ہر نیا دن ہر نیا سورج کسی نئی تکلیف کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے بڑے بڑے دعوے ،بڑے بڑے منصوبے کیا اس حوالے سے تھے کہ عوام کو کس قدر اور کتنا ڈبونا،کتنا ذلیل کرنا،کتنا پستی میں دھکیلنا اور ان کی معصوم خواہشات سے کتنا کھلواڑ کرنا ہے ستم ظریفی یہ کہ ماضی میں جو آئے اور جو ہم پر اس وقت مسلط ہیں سبھی نے خود ہی قومی خزانے کو کپڑے کی طرح نچوڑتے ہوئے عوام سے ہی قربانیاں مانگیں،ہر قومی ادارے تباہ کئے، ہر عوام دشمنی پالیسی ہم پر مسلط کی،اپنی مراعات ،اختیارات اور اقتدار کو دوام بخشا مگر عوام کی حالت نہ بدلی نہ سدھری نہ آج تک ان کا کوئی پرسان حال ہے قیام پاکستان سے لے کر عوام جیسے تھے ویسے کے ویسے ہی نہیں بلکہ مصیبتوں کے پہاڑ ان پر توڑتے گئے اور وہ برداشت کرتے گئے ان کی حالت بد تر سے بد تر ہی بنائی گئی ،رہبر ،رہنماء،قائد اور حکمران تو عوام کے لئے ہوتے ہیں اور آتے بھی انہی کے ووٹوں سے ہیں مجموعی طور پر طواٸف نما یہ سیاستدان عوام بارے بڑھکیں ضرور مارتے ہیں ضرورت پڑنے پر بہت چیختے بھی ہیں چلاتے بھی ہیں ٹسوے بھی بہاتے ہیں تقدیر بدلنے والے جیسا منشور بھی پیش کرتے ہیں دعووں میں زمین آسمان بھی ایک کر دیتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے انہیں کتنا نچوڑنا ہے اور جتنا نچوڑ لوجتنا انہیں نیم مردہ کر لو ،جتنی ان کے خون سے پیاس بجھا لو جتنا انہیں ذلت کی گہرائی میں دھکیل سکتے ہو دھکیلو جتنا ان کو صحت اورتعلیم سے محروم و پسماندہ رکھ سکتے ہو رکھو جتنا انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھ سکتے ہو رکھو جتنا انہیں روزی روٹی اور روزگار سے دور اور محروم کر سکتے ہو کرو یہی ان سبھی کا بنیادی منشور مقصد ہوتا ہے تاکہ یہ جانور نما عوام ان کے آگے ناچتی رہیں ،بھنگڑے ڈالتی رہی اپنی بہتری کی امید میں ان کے لئے لاٹھیاں ،گولیاں کھاتی رہی ،مگر اشرافیہ مقدس ایوان اور عوام کچرے کے ڈھیروں پر ہوتے ہیں ،ان کے نیچے سرکاری گاڑیاں،پروٹوکول ،مراعات اورعوام کے لئے بھوک ،ننگ افلاس، حسرت ،مایوسی اور پسماندگی ہوتی ہے ماضی کے حکمرانوں پر لوٹ مار کے الزامات ہیں بعض جیلوں میں ہیں ،بعض کو سزا سنائی جا چکی ہے بعض بیرون ملک ہیں ۔ان افراد نے لوٹ مار کی بھی ہی ہے تو یہ پھر بھی اشرافیہ ،ماضی اس بات کی گواہ ہے کہ کس پر لوٹ مار کا جتنا بڑا الزام لگا وہ اتنے ہی بڑے عہدے حکومتی عہدے پر براجمان ہوا ان کے خلاف مقدمات،جیلیں اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پیشیاں ان کی لیڈر شپ کے لئے ضروری ہیں چند ماہ سے حکومت مخالف الائنس نے سیاسی دکانداری بڑے طمطراق سے سجا رکھی ہے ،دوسری جانب حکومتی حلقوں بھی کچھ کم نہیں اخلاقیات کا جنازہ روزانہ کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتا ہے اس دوران جہاں ایک طرف جلسوں کی بہار رہی وہیں پر مقدس ایوان کے اجلاسوں کا بھی انعقاد ہوا مگر ہمارے سابق و موجودہ حکمرانوں کے نزدیک اس ریاست کے اصل مسائل صرف وہ ہیں جو انہیں در پیش ہیں ،عوام نامی مخلوق ان کے منشور سے بانی کے بلبلے کی طرح ہوا ہو چکی ہے حیرت اور شرم تو اس بات پر ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے چاہے وہ اپوزیشن میں یا اقتدار کی جھولی میں سبھی عوام کو مصیبتوں فاقوں کا جھولا جھلا رہے ہیں لگتا ہے حکمران جماعت بڑے بڑے منصوبوں بڑے بڑے دعووں کے سوا کچھ اور کرنے کو تیار ہی نہیں بڑے منصوبوں بارے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان کے ثمرات نہ جانے ہماری کس نسل کی آبیاری کریں گے یہی حالات رہے تو لگتا ہے انقلابی جماعت کا آئندہ ٹکٹ برائے الیکشن لینے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہو گا حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے مگر نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے،قربانی قربانی آخر عوام سے ہی وہ بھی ہر بار ،ہر حکومت میں ،لعنت ہو ایسی قیادت پر جن کے ہوتے ہوئے عوام سڑکوں پر رل جائے 

یہ بھی پڑھیں دریائی کٹاؤ، انتظامیہ، عوامی نمائندگان اور عوام

 قطاریں ان کا مقدر بن جائیں،آٹا لینے کے لئے شناختی کارڈ دینا پڑے مہنگائی مہنگائی اس کے علاوہ سرا دن ہر وقت کوئی اور موضوع ہی نہیں ملتا بس میں سفر کر لیں، کسی مارکیٹ میں چلے جائیں ،کچھ دوستوں کے ساتھ وقت گذاریں بس یہی ایک ہی مسئلہ، ایک ہی موضوع جو غلط بھی نہیں ہے چند روز قبل پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران ایک باریش شخص کسی مسجد یا مدرسہ کے لئے چندہ لینے کئے لئے بس میں سوار ہوا وہ گویا ہوا کہ مسجد کا کام بہت رہتا ہے سیمنٹ کا ریٹ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ہماری دسترس میں نہیں رہا مطلب حکومتی کارکردگی کا ایک چہرہ یہ بھی ہے عوام تباہ حال ہے بلک رہی ہے تڑپ رہی ہے ذلیل ہو رہی ہے بھوک ،ننگ اور افلاس سے خود کشیاں بڑھ چکی ہیں جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور جرائم کا اضافہ بھی ایک تحقیق کے مطابق وہی ہوتا ہے جہاں مہنگائی کی امبربیل پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے ہمارے کپتان کو یا تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی یا سبھی چمچے کھڑچے ان تک اصل بات پہنچنے دے ہی نہیں رہے اور ہمارے وزیر اعظم اتنے بے خبر کیوں ہیں انقلابی سوچ والے تو سب سے پہلی عوامی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں مگر ہمارے سربراہ کی ترجیح ہے کیا اور جو ترجیح تھی وہ کس کھو کھاتے جا پڑی؟ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی اور جو ترجیح نظر آ رہی ہے وہ یوں ہے کہ جو لوگ جن پر قومی خزانے کے چھیتھڑے اڑانے کے الزامات ہیں جن کے ہوتے ہوئے گندم چوہے کھا گئے تھرپاکر میں بچے غذائی قلت کے باعت موت کے منہ میں چلے گئے گھروں میں آہ و بکا کے طوفان جاری رہے وہ بھی بن سنور کر عوامی مفادات کے ماموں جان بن چکے ہیں پنجاب کے تقریبا ہر ضلع میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گورننس کا وہ شرمناک کردار ہرعلاقے،ہر محلے ،ہر گلی ،ہر دفتر میں انتہائی واضح اور عیاں ہے جو لوگ اس سونامی اس طوفان کے ہاتھوں شل ہو چکے ہیں ان میں ہم بھی شامل ہیں یہاں چور چور ہی دوسروں کو چور چور پکار کربہت فخریہ انداز میں مزے لوٹ رہے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے ہم جیسے کدھر جائیں خدا کے واسطے ہمیں ویسے ہی مار دیں آپ چند خاندان جانے اور یہ ملک جانے کس حد تک قربانیاں دیں کس حد تک فاقہ کشی برداشت کریں کس حد تک بے روزگاری کا دامن تھامے رکھیں کس حد تک روزانہ کی بنیاد پر ہیبت ناک مہنگائی کا سامنا کریں کیسے اسے بھگتیں ،ہم میں جو رہتاسہتا خون سے خدارا اسے ایک دفعہ ہی نچوڑ لیں ہماری ہمت جواب دے چکی ہے آسودگی،خوشحالی ،شادمانی اور بنیادی سہولیات جو کہ کسی بھی ریاست اور وہ بھی اسلامی ہو ان سے محرومی شاید بلکہ یقینا ہمارے نصیب اور مقدر میں ہی نہیں ہے ایسے ماہرین معاشیات کے اعدادو شمار کا گورکھ دھندا ہمیں مردہ کر چکا ہے یہ دعوے باز اور ماضی کو کوسنے والے بھی ہمارے (عوام)کے دشمن ہیں فاقہ کشی اور درد مانی میں کئی سال گزارنا تومردہ نما زندگی کا نام ہے ایسے تو ایک دن بھی گزارنا ناممکن ہے یہ ہم سے قربانیاں مانگتے ہیں ہم نے بہت قربانیاں دیں دے رہے ہیں نہ جانے ہماری کتنی نسلوں کو ایسی ہی قربانیاں دینا پڑے گی مگر کیا ہم سے قربانیاں مانگنے اور لینے والوں نے بھی کبھی کوئی قربانی دی؟ نہیں یہ صرف قربانی لینا جانتے ہیں دینا نہیں بلکہ قربانی دینے کے لفظ اور مفہوم سے یہ لوگ نا آشنا ہیں تحریک انصاف کے دور میں ہی انصاف محروم ہوگیا کتنی اچنبھے کی بات ہے اور وہ بھی ایسے جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملے گی ،احتجاج کے بعد حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 ایڈہاک ریلیف کے طور پر بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے مگر یہ شرف بھی اس مہربان حکومت کے کھاتہ میں جا رہا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور پنشنرز مکمل نظر انداز ،صدقے جائیں اس حکومتی پالیسی پر،ان مشیروں ،وزیروں کی سوچ پر،حکومتی چاپلوسوں پر جن کی سوچ ہی غریبوں کے حوالے سے مکمل طور پر لعنت زدہ ہے ۔


 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent