Ticker

6/recent/ticker-posts

رحمان کے راستے پر چلنے میں ہی دونوں جہانوں کی کامیابی ہے

The success of both worlds lies in following the path of Rehman

تحریر سیدساجدعلی شاہ

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ، چوبیس ہزار انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا انبیائے کرامؑ کی بعثت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا اور اس مبارک سلسلے کا اختتام، حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر ہوا کہ آپ خاتم النبیّین ہیں آسمانِ دنیا کی گہما گہمی کسی بڑی خبر کی نوید سُنا رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا تسبیح و تہلیل میں مصروف فرشتوں کے تجسّس اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ نظریں بیت المعمور پر تھیں اور کان، اللہ کی پکار کے منتظر بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ربّ ِ ذوالجلال کا حکم فضا میں بلند ہوا۔ترجمہ:’’مَیں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘فرشتے اس فیصلے پر حیران تھے اور متعجّب بھی اُن کا خیال تھا کہ جنّات کی طرح یہ بھی زمین پر لڑائی جھگڑا اور فساد کریں گے چناں چہ اُنہوں نے اس فیصلے کی حکمت معلوم کرنے کی غرض سے ڈرتے ڈرتے عرض کیا’’(اے ہمارے ربّ)ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے، جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے‘‘(البقرہ 30)۔

اللہ تعالٰی کی ذات اس کائنات کی تنہا خالق، وحدہ لا شریک اور مالک  ذات ہے اللہ تعالی اپنی ذات میں ابتدا سے پاک ہے نہ انسانوں کا محتاج، نہ فرشتوں کا محتاج، نہ نبیوں اور رسولوں کا محتاج، نہ جنت اور جہنم کا محتاج، اکیلا تن تنہا اتنےبڑےنظام کا خالق مالک علم قدرت اتنا کامل اتنی پھیلی ہوئی کائنات جلتی ہوئی اڑتی ہوئی تیرتی ہوئی سےذرہ برابر نہ غافل ہے مشتاق احمد جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں داخل ہوا تو مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے وہ چپ چاپ خطبہ سنتا رہا معمولی پڑھا لکھا تھا کچھ سمجھ آیا کچھ نہ آیا لیکن جب مولوی صاحب نے بتایا کہ ہمیں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور کچھ ایسے واقعات بھی سنائے جب کسی معمولی سے عمل کی بنیاد پر اللہ نے بےحساب اجر دیا تو اس نے سوچا کہ یہ کوشش تو میں بھی کر سکتا ہوں بس پھر کیا تھا نماز ختم ہوتے ہی مشتاق احمد مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے کوئی آسان سی کتاب مانگی جس پر عمل کر کے وہ بھی ثواب کما سکے مولوی صاحب  نے اس کا شوق دیکھتے ہوئے اسے ایک آسان سی حدیث کی ترجمہ والی کتاب تھما دی مشتاق احمد کو نیا مشغلہ مل گیا تھا روز کھیتی کے کام سے فارغ ہو کر کتاب پکڑتا اور ہجے کر کر کے پڑھتا سردیوں کے دن تھے اس کے بیوی بچے اپنے میکے برابر والے گاؤں میں گئے ہؤے تھے اس نے باہر جھانکا ہر طرف خاموشی تھی کبھی کبھی کسی چرند پرند کی آواز سنائی دے جاتی یا کوئی اکا دکا دیہاتی گزرتا نظر آ جاتا وہ اپنے بستر پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کی دی ہوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ عزوجل ایک شخص سے فرمائیں گے اے ابن آدم، میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی " مشتاق احمد چونک گیا اور حیرت  کے عالم میں آگے پڑھنے لگا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا " مشتاق احمد  مزید پریشان ہوگیا اسے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ کو بھی یہ سب چاہیے ہوتا ہے اس نے اٹک اٹک کر آگے پڑھنا شروع کیا" اے ابن آدم میں نے تم سے پانی مانگا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا " اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اس نے کتاب بند کر دی سب سے پہلے تو اس نے رو رو کر اللہ سے اپنی لا علمی کی معافی مانگی اور پھر مولوی صاحب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دعا مانگنی شروع کر دی اور اللہ سے التجا کی کہ وہ اسے توفیق دے کہ وہ اس کے گھر پہنچ سکے یا اللہ کو جب ضرورت ہو خود اس کے گھر آئے وہ اسے کھانا بھی دیگا اور اس کی پوری دیکھ بھال بھی کریگا اگلے دن  وہ صبح  سویرے اٹھ گیا اور جلدی جلدی گھر صاف کرنے لگا اسے بہت امید تھی کہ اللہ نے اس کی التجا سن لی ہوگی اور وہ ضرور اس کے گھر آ کر اسے خدمت کا موقع دیں گے تب ہی اسے باہر کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی اس نے جلدی سے دروازہ کھول کر باہر جھانکا لیکن باہر تو برکت چاچا کھڑا تھا وہ موچی تھا پورے گاؤں کے جوتے وہی بناتا تھا مشتاق احمد نے اس سے علیک سلیک کرنا چاہی مگر وہ کچھ بجھا بجھا نظر آرہا تھا کیا بات ہے تمہاری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی مشتاق اسے گھر کے اندر لے آیا بےچارہ برکت چاچا  بخار میں پھنک رہا تھا مشتاق  نے جلدی سے اسے چائے بنا کر پلائی اور اس سے علاج کے بارے میں پوچھا چھوڑو بھی کیا دوا لینی ہے کب سے ایسے ہی چل رہا ہے خود ہی ٹھیک ہوجائے گا برکت چاچا  نے بے زاری سے جواب دیا مشتاق سمجھ گیا کہ برکت چاچا  کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں وہ اندر گیا

یہ بھی پڑھیں : مغربی ہواوں کے نئے سلسلوں کی پاکستان آمد اور اس کے اثرات

اور کچھ رقم اسے زبردستی تھما دی اپنا علاج ٹھیک سے کرواؤ اور اگر مزید ضرورت ہو تو مجھے بتا ضرور دینا برکت چاچا ہکا بکارہ گیا اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا دوپہر ہو چکی تھی مشتاق نے جلدی جلدی کھانے کی تیاری شروع کی اس نے کھانے کی مقدار زیادہ رکھی تھی تا کہ جب اللہ آئے تو کھانا کافی ہو جائے وہ بار بار باہر جھانکتا لیکن اللہ کہیں نظر نہیں آیا وہ تقریباً مایوس ہو چکا تھا کہ اسے  اپنا ہمسایہ کریمو نظر آیا جو صبح سے شام تک مزدوری کرتا تھا کریمو نے اسے بتایا کہ اسے کئی دن سے مزدوری نہیں ملی گھر میں اس کے بچے بھوکے ہیں اور وہ آج بھی مایوس گھر جارہا ہے مشتاق احمد کو یہ سب سن کر سخت افسوس ہوا اس نے کریمو کو اپنے کھانے میں شامل کر لیا اور جب وہ جانے لگا تو راشن اور کھانے کا پارسل بنا کر اسے تھما دیا کریمو اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا مشتاق  کو برکت چاچا  اور کریمو کی مدد کر کے بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ کچھ اداس اور مایوس بھی تھا پورے دن انتظار کے بعد بھی اللہ اس کے پاس نہیں آیا کہیں اللہ اس سے ناراض تو نہیں یہ سوچ کر وہ کچھ پریشان سا ہو گیا اس نے جلدی سے اپنی حدیث کی کتاب نکالی پہلے پچھلا سبق دہرایا اور پھر آگے پڑھنا شروع کیا وہ شخص حیران ہو کر کہے گا کہ اے میرے رب میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے مشتاق کی آنکھوں کے سامنے یکدم برکت چاچا  کازرد چہرہ گھوم گیا اس نے اگلی سطر پڑھی  وہ شخص کہے گا اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا آپ تو دو جہان کے پالن ہار ہیں اللہ تعالی فرمائیں گے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا تم اگر اس کو کھانا کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے پھر وہ شخص کہے گا اے میرے رب میں آپ کو کیسے پانی پلاتا آپ تو دو عالم کے مالک ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے فلاں بندے نے تم سے پانی مانگا تھا اگر تم اس کو پلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے مشتاق کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کے تصور میں کریمو اور برکت چاچا  جگمگا رہے تھے وہ اپنا سبق نہ صرف سمجھ چکا تھا بلکہ اس میں کامیاب بھی ہو چکا تھا، اللہ تعالی نے بنی آدم سے کہا کہ تم کو آزادی دےرہا ہوں موت تک پھر تم سے پوچھ گچھ کروں گا، اب  تمھاری مرضی ہے ان ٹھندی ہوائوں کو محسوس کرکےمیرا شکر ادا کرو، یا ان ٹھنڈی ہوائوں میں مست ہو کر گانےکی محفلیں سجاؤ میں دیکھوں گا دونوں کو مگر فیصلہ کروں گا فیصلے کے دن ہمارےایک ایک قول فعل پر اللہ کی نظر ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اللہ ہمیں اپنے سامنے کھڑا کر دیگا کہ کرو راستے کھلے ہوئے ہیں ۔ گناہوں کےبھی، اچھائی کےبھی، برائی کےبھی، ایمان کےبھی، کفر کےبھی، سارےراستے کھلے ہوئے ہیں تمھیں اختیار دےدیا ہے جو چاہےایما ن لائےاور جو چاہےکفر اختیار کرے۔ دوستو ہمیں چاہیے کہ شیطان کا راستے اختیار کرنے کی بجائے رحمن کے احکامات پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں جس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے

یہ بھی پڑھیں : گیلانی کا گریبان بچونگڑے کے ہاتھ؟


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent