Ticker

6/recent/ticker-posts

نوجوان فحاشی کی بجائے نکاح کو اپنائیں

Young people adopt marriage instead of obscenity

تحریر سید ساجد علی شاہ

وقت اللہ رب العزت کی ایک ایسی نعمت ہے جو انسانی معاشرہ میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، صغیر، کبیرسب کو ملی ہے ، وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سِل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھا یا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھلتی ہی جاتی ہے اس وقت مسلم معاشرہ عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے یورپی معاشرہ اپنی تمامتر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود وقت کا قدر داں ہے اور زندگی کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت گزار نے کا پابند بنا ہوا ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ان کی تر قیوں کا ایک بڑا سبب وقت کی قدر دانی ہی ہے ۔ جو قو میں وقت کی قدر کر نا جانتی ہیں، صحراوٴں کو گلشن بنا دیتی ہیں، وہ فضاوٴں پر قبضہ کر سکتی ہیں وہ عناصر کو مسخر کر سکتی ہیں وہ پہاڑوں کے جگر پاش پاش کر سکتی ہیں وہ زمانہ کی زمامِ قیادت سنبھال سکتی ہیں لیکن جو قومیں وقت کو ضائع کردیتی ہیں وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے ایسی قو میں غلامی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتی ہیں آج ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا، گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا ،اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے ہم لو گ بیٹھکوں، چوپالوں، ہوٹلوں اور نجی مجلسوں میں وقت گزاری کرتے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو تا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ حَیَاتَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَشَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَغَناکَ قَبْلَ فَقْرِکْ ترجمہ: پانچ چیزوں کوپانچ سے قبل غنیمت سمجھو ، زندگی کو مرنے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مالداری کو فقر سے پہلے، اس حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ آدمی کی فہم و دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس فانی زندگی کے اوقات و اَدوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے

یہ بھی پڑھیں : محکمہ بہبود آبادی میں اسٹینوگرافر کی نوکریاں

زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت میں اس کی ہرہر چیز کا حساب ہو گا اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پرس ہو گی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے کراماً کاتبین اس کے قول و فعل کو نوٹ کر رہے ہیں قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اوراسلام نے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہےحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے  اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”وَاللّٰہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ“ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منھ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کا محتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔ راحت و مسرت سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کو اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے خاندانی فائدے اخلاقی فائدے سماجی فائدے نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔نسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منہ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاح کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے

 یہ بھی پڑھیں : الٹی (قے) کرنے کی تعبیر

تاریخ میں چند استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کو اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم مذہب اور ملت نہیں رہے ہیں۔ہر مذہب وملت میں مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر تعلقات مرد وعورت برے اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم و رواج الگ الگ رہے ہیں بحرحال شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں اسی بنا پر اسلام نے نکاح کو اس قدر اہم بتایا ہے اور مرد اور عورت کو نکاح کے مہذب بندھن میں باندھنا لازمی سمجھا ہے اس لئے کہ نکاح خاندان کو وجود بخشتا ہے۔ سماج کا تصور دیا ہے۔ اسلام نکاح کے ذریعہ نسل آدم کا تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کے انقطاع کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ”وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا وَّجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا“ وہی اللہ ہے جس نے انسان کو پانی (یعنی ایک قطرہ بوند) سے پیدا کیا (اور اس کے ذریعہ) نسل آدم کو چلا دیا اور اسے خاندان اور سسرال والا بنادیا اور تمہارا رب واقعی بڑی قدرت والا ہے، اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اور اسوہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام نکاح کو روحانی اوراخلاقی ترقی کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ روحانیت اور اخلاق میں سب سے اونچا مقام اور بلند معیار انبیاء کرام کا ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے تعلق سے ذکر کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام شادی شدہ اور بال بچے والے رہے ہیں۔ انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اورانسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسوئہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایک طرف رہبانیت کو روا نہیں رکھا ہے تو دوسری طرف انسان کو بے لگام بھی نہیں چھوڑدیا ہے۔ اسلام انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے اوراسلام کے فکر اعتدال اور نظریہٴ توازن میں انسان ہی کی خیرخواہی و بھلائی ہے۔ اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں اعتدال و توازن کا جو جامع فکری و عملی نظریہ پیش کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔آج پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں جوڑے جہیز اور بہت ساری رسومات کی بنا پر پریشان ہیں تواسلامی ممالک میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرکے غیرضروری پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں خاص طور پر عرب ممالک میں جو جتنا زیادہ مہر باندھتا ہے اتنی جلدی نکاح کرسکتا ہے بسا اوقات نکاح کا انحصار مہر کے زیادہ مقرر ہونے پر ہے جس کی وجہ سے بہت سارے مرد شادی سے محروم ہیں۔ہمارے معاشرے میں نو جوانوں کے قیمتی اوقات کے ضیاع کا ایک بڑا سبب مو بائل فون بنا ہوا ہے اس کےذریعہ ایس ایم ایس بھیجنے اور اس کے پروگراموں میں وقت گزاری کرنے کا ایک عام مزاج بن گیا، گھنٹوں اس میں ضائع کر دینا، راتوں کو خراب کر نا، ایک عام سی بات ہو گئی، کبھی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ میرا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ آج کا نو جوان مو بائل کو لے کر ایک مجنونانہ کیفیت کا شکار ہوچکا ہے اور اس و بائی مر ض سے مدارس کا ایک بڑا طبقہ بھی محفو ظ نہ رہ سکا

یہ بھی پڑھیں : ویب سائٹ یا بلاگ پر کیسا مواد لکھیں؟

منتظمین کی جانب سے با وجود سخت پابندی اور کڑی نگرانی کے طلبہ پھر بھی اپنی حر کتوں سے باز نہیں آ تے اور اس مو بائل کے منفی اثرات سے پوری طرح وہ متاثر ہو چکے ہیں، ان دینی طالب علموں کو نہ اپنے دین وایمان کا فکر ہو تاہے، نہ اپنی دنیوی زندگی کے ضیاع کاکبھی خیال آتا، بس وہ اپنے مستقبل سے آنکھیں بند کر کے مدرسوں کی چہار دیواری میں طالب علمانہ لباس اختیار کر کے خود کو بھی دھو کہ دے رہے ہیں اور اپنے استاذوں و سر پرستوں اور والدین کو بھی اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں، اللہ رب العزت ہی ان کے حال پر رحم فرمائے ، اور ان نادان و ناعاقبت اندیش بچوں کو فکر عطاء فرمائے کہ وہ اپنامستقبل روشن و تاب ناک بنانے پر محنت کریں اور اپنے اہلِ خانہ کی اس گاڑھی کمائی کی قدر کریں کہ جو بسیار محنتوں و مشقتوں کے ساتھ کما کر ان بچوں کے ماہانہ صرفہ کا نظم کر تے ہیں باری تعالیٰ انھیں فہمِ سلیم سے نوازے! آمین۔ 

نوجوان فحاشی کی بجائے نکاح کو اپنائیں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent