Ticker

6/recent/ticker-posts

اصلاح معاشرہ

Reform society

تحریر سید ساجد علی شاہ

کسی بھی معاشرے کی تکمیل و تعمیر کے لیے اصلاح کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اگرچہ اصلاح ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے مگر عموما اصلاح کے معنی سمجھانے کے ہی لیے جاتے ہیں اصلاح معاشرہ ایک خوبصورت عنوان اور دو لفظوں کے حسین و دلکش تعمیر ہے اس لفظ کے سننے بولنے اور پڑھنے والے کے ذہن و دماغ کے دریچوں میں معاشرے کی وہ تمام برائیاں گردش کرنے لگتی ہیں جنھوں نے مسلم معاشرے کو گندہ اور زہر آلود کر دیا ہے نوجوان جس طرح گھر خاندان کا ایک فرد ہے اور گھریلو و خاندانی ماحول کے پرسکون بنانے کے لیے نوجوان کی ذمہ داریاں اس کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح گھر خاندان کے دائرے سے آگے نوجوان اپنے اردگرد معاشرے کا بھی ایک فرد ہے معاشرے کی اصلاح اور اسلامی و خوشکوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب دے اہم ہے اس کے اسلامی کردار و گفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ سمیت اصلاح کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور اسلامی معاشرے کا وجود ناکام و ناتمام رہتا ہے اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کی باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رستے رہتے ہیں دنیا میں بعض رشتوں میں کڑواہٹ بھری ہوتی ہے جن میں اکثر رشتے کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک منفی سوچ ابھرتی ہے لیکن یہ کڑواہٹ کبھی تو ہم خود اپنی ہی وجہ سے بھر دیتے ہیں اور کبھی دوسرے اس رشتے میں کڑواہٹ بھرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں پھر یہ نازک سے رشتے مثلاً ساس، بہو، نند، بھاوج ، دیورانی، جیٹھانی اور سب سے بڑھ کر میاں بیوی کے رشتے جو ہماری ذرا سی غلطیوں سے رشتے میں تلخی بھر جاتی ہے اگر دیکھا جائے تو یہ سارے رشتے بہت پیارے ہوتے ہیں اگر ہر معاملے میں عقلمندی اور سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ رشتے ہمارے خونی رشتوں سے بھی زیادہ قریب نہ ہوجائیں اس لئے زندگی میں رشتوں کی نسبت اور معاشرے میں لفظوں میں احتیاط میں فہم و فراست کے استعمال سے ہر سو محبتوں کا پیام پھیل جاتا ہے پھر یہی محبتیں رشتوں کو مضبوط بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں جو معاشرے میں عزت و احترام کو بڑھاتی ہیں اسی طرح ہم سچ اور سچائی کو بیان کرتے وقت لہجے کو میٹھا یا کڑوا بناتے ہیں بات کتنی بھی بڑی یا سنگین کیوں نہ ہو اس کو باقاعدہ دلائل کے ساتھ اگر پیش کیا جائے تو یقینا بڑی اور فکر انگیز بات بھی راکھ ہوجاتی ہے

یہ بھی پڑھیں: آخرکارعدالت کےہتھوڑے نےکام کردکھایا

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بزرگوں کا لحاظ اپنوں سے محبت، انکی عزت، انکا کہنا ماننا انکا خیال رکھنا کبھی ہمارا وصف اور امتیاز ہوتا تھا مگر آج کے اس مشینی دور میں یہ سب ایک خواب بن کر رہ گیا یا اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب ہمارا یہ کام بھی اغیار نے سنبھال لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مخلص رشتوں کی بنیاد اس پہلی اینٹ کی مانند ہوتی ہے جو اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار ٹیڑھی ہی تعمیر ہوتی ہے ہمارے دانست میں رشتوں کو نبھاناجتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ اس میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ رشتے مضبوط ہوں یا کمزور وہی انسان کو تکمیل کے مراحل تک پہنچاتے ہیں لیکن ساتھ ہی انسان کی سب سے زیادہ نازک عارضی ناقابل اعتبار چیز انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وقت ، دوست اور رشتے سب کچھ ہمیں مل جاتے ہیں لیکن ہم انکی قدر نہیں کرتے انکی قدرو منزلت کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ ہم سے دور ہوجاتے ہیں درحقیقت رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کی باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو اپنی سانسوں تک رستے رہتے ہیں اور پھر ان زخموں کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں ہوتا اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض گھرانوں میں چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے رشتوں کو سرے سے ختم ہی کردیتی ہیں ذرا ذرا سی بات کو رائی کا پہا ڑ بنادیا جاتا ہے یعنی معمولی معمولی باتیں رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان تمام عمر وضاحتوں کی اینٹ لگاتا رہتا ہے اور ان خوبصورت اور حسین رشتوں کو پھر بھی نہیں بچا پاتا

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کرونا بےقابو،آئی پی ایل ملتوی کردیاگیا

ایسا محض اس لئے ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے صرف عزت و توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس لئے انکی جتنی قدر و منزلت کی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن ہم سب اپنی زندگی کے مسائل ،مصائب اور بکھیروں میں الجھ کراپنے ان رشتوں اور دیگر اہم خونی رشتوں کی خدمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اس خدمت کا قرض اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں پھر اس جہاں فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں رشتوں کی حقیقت یہ ہے کہ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہوتی ہے مگر افسوس کہ ہم سبھی میں برداشت کی برکت اب رخصت ہوچکی ہے زندگی کی خوبصورتی رشتوں کی بدولت ہوتی ہے انسان کی زندگی ایک تناور درخت کی مانند ہوتی ہے جس سے جڑے سارے رشتے ہری بھری ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں اگر ٹہنیاں سوکھ جائیں تو پورے کا پورا درخت ہی سوکھ جاتا ہے پھر زندگی کے اس درخت کو ہرا بھرا رکھنے کیلئے ان ٹہنیوں کو ہرا بھرا رکھنا ضروری ہے اگر ان رشتوں میں ذرا سی بھی غلط فہمیاں جنم لینے

یہ بھی پڑھیں: استاد دیکھنے کی تعبیر

لگیں تو یہ ساری کی ساری ٹہنیاں آہستہ آہستہ سوکھ کر ٹوٹ جاتی ہیں اور پھر بکھرنے لگتی ہیں۔ ان ٹہنیوں کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچانے کیلئے وہی انسان جھکتا ہے جسے رشتوں کی قدر کرنی آتی ہے

اس کالم سے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے وٹس ایپ نمبر 03053748065


یہ بھی پڑھیں : پاکستان علماء کونسل

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent