Ticker

6/recent/ticker-posts

بیلچہ اور گینتی بھکاری نہیں،محنتی کے اوزار ہیں

Shovels and counting are tools, not beggars

کالم نگار،ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی

جنرل(ر) اعجاز اعوان کی طرف سے جنوبی پنجاب کے مزدوروں کو پیشہ ور بھکاری قرار دینا مفلسی ذہنیت کی علامت ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ بیلچہ اور گینتی بھکاری کے نہیں بلکہ محنتی اور مزدوروں کے اوزار ہوتے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ ناصرف اپنے خاندان اوربیوی بچوں کو رزقِ حلال کے ذریعے پالتے ہیں بلکہ تعمیر وطن میں بھی مقدور بھر حصہ ڈالتے ہیں دین اسلام سے گہری وابستگی رکھنے والی پاکستانی قوم کے لیے الکاسب حبیب اللہ یعنی محنتی اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے جیسے احکامات روشنی کا ایسا مینارہ ہیں جن سے رہنمائی لیکر ہم زندگی کا ایک ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں
حلال رزق کمانا تو ا نسان کی شان سمجھا جاتا ہے موصوف اعجاز اعوان کی طرف سے اسے بھکاریوں کی علامت قرار دینا کروڑوں مزدوروں کے دل آزاری کا باعث بنا ہے حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کے لیے جنوبی پنجاب میں بسنے والے مزدوروں اور محنت کشوں کا نام تک لیا ہے ظاہرہے مذکورہ خطے میں قدیم سرائیکی قوم بستی ہے جو محنت، مشقت اور مزدوری کرنا اپنی ضرورتوں کے علاوہ اپنی قومی ذمہ داری بھی سمجھتی ہے اس طرح اعجاز اعوان نے وسیب کے کروڑوں لوگوں کے دل دکھائے ہیں اور یہ کوئی قومی خدمت نہیں ہے بلکہ ان کے اس بیان سے پاکستان کی وحدت پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں
پورا زمانہ جانتا ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تواس وقت سرائیکی بولنے والوں کی اکثریتی ریاست بہاولپور پاکستان بھر میں ایک متمول اور وافر وسائل رکھنے والی ریاست سمجھی جاتی تھی جس نے ناصرف وفاق پاکستان کی بھرپور مدد کی بلکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی خدمت میں بھی اس دور کی انتہائی قیمتی گاڑی پیشی کی تھی ریاست بہاولپور کے نواب سر محمد صادق خان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ملک بھر کے پاکستانیوں اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کو اپنی ریاست میں آباد ہونے کی دعوت دی تھی یہی وجہ ہے کہ آج بھی ریاست بہاولپور کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں مختلف قومیتوں کے بے شمار خاندان ناصرف آباد ہیں بلکہ انتہائی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اوربلا شبہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل سے قومی تعمیر میں بھی حصہ لے رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں: بان سن دیکھنے کی تعبیر

ریاست بہاولپور اپنی زرخیز زمینوں،پانی کے وافر وسائل، وسیع و عریض باغات اور ہزاروں کلومیٹر پر محیط چولستان کے لیے مشہور و معروف ہے یہ وہی چولستان ہے جہاں ریاست پاکستان مختلف سکیورٹی اداروں سے وابستہ افراد کی ریٹائر منٹ کے بعد انہیں زمینیں آلاٹ کرتی ہے جس کے نتیجے میں چولستان بھی سر سبز شکل اختیار کر رہا ہے کیونکہ اس علاقے میں تعمیر کی جانے والی سیلابی نہر اب سارا سال بہتی رہتی ہے جبکہ ہیڈ پنجند سے نکلنے والی پنجند کینال ماضی کے برعکس سال بھر چلنے کی بجائے نام کی حدتک تو شش ماہی کر دی گئی ہے لیکن اس میں پانی صرف تین سے چار ماہ کے لیے چھوڑا جاتا ہے ظاہر ہے اس پر زراعت سے وابستہ وسیب واسیوں کو شدید پریشانی اور تحفظات لاحق ہیں لیکن مجال ہے کہ ہماری پنجاب کی صوبائی حکومت نے وسیب کی ان محرومیوں کی طرف کبھی بھی توجہ دی ہو پھر بھی کروڑو ں کی تعداد میں موجود سرائیکی پاکستانی کسی بھی دوسری قومیت کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ محبت کرتے ہیں ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ ایک عرصے سے اپنی شناخت کے لیے ضرور کوشاں ہیں جس کا حق انہیں عالمی قوانین اور خود پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے لیکن میرے نزدیک سرائیکی صوبے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ خود سرائیکی منتخب نمائندے ہیں جو جان بوجھ کر اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی ادارے نہیں بننے دیتے تاکہ لوگ شعور حاصل نہ کر سکیں اور نسل در نسل وڈیروں کے سامنے بیٹھنے کی بجائے زمین پر بیٹھ کر ان کا حکم بجا لاتے رہیں سندھ کے دیہات اور سرائیکی وسیب پر جب تک یہ وڈیرے مسلط ہیں انہیں کبھی بھی حقیقی معنوں میں آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی اور یہی وسیب کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے
اعجاز اعوان جیسے لوگوں کے زہر بھرے بیانات سے ملک کی تو کوئی خدمت نہیں ہوتی ہاں البتہٰ ایسے بیانات سے بے شمار پاکستانیوں کے دل ضرور ٹوٹتے ہیں پاکستان نے ماضی میں بھی چھوٹی قومیتوں کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کر کے انہیں قومی دھارے سے باہر نکلنے اور عحلیدگی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور آج بھی اعجاز اعوان جیسے لوگ اسی حبس زدہ سوچ کا اظہار کر رہے ہیں جس کا رد عمل آپ سوشل میڈیا میں جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح جنوبی پنجاب کے وسیب واسی اس پر سراپا احتجاج ہیں موصوف پاکستان کے ایک ایسے قومی ادارے سے وابستہ رہے ہیں جسے پوری دنیا  بجا طور پرپاکستان کے لیے بائنڈنگ فورس کا نام دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی اپنی فورس کو آنکھوں پر بٹھاتی ہے کیونکہ یہ حب الوطنی کا تقاضا ہے لیکن افسوس اور حیرت ہوتی ہے کہ ہماری انفرادی سوچ اور فکر اجتماعی سوچ کے قالب میں ڈھلنے کی بجائے ریٹائر منٹ کے بعد تعصب کے ایک خاص مقام پر آٹھہرتی ہے

یہ بھی پڑھیں : آئیں اپنی پولیس کی خوداصلاح کریں


آج کے اطلاعاتی انقلاب نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پلک جھپکتے ہی دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتی ہے اس لیے ہمیں قومی ایشوز، پاکستانی قومیتوں اور سکیورٹی کے معاملات پربولنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارا فکری انتشار اور ذہن کی مفلسی ہماری قومی یکجہتی کو توکمزور نہیں کر رہی؟ جیسا کہ ہم نے موصوف اعجاز اعوان کے معاملے میں پاکستان بھر میں مشاہدہ کیا ہے۔
بیلچہ اور گینتی بھکاری نہیں،محنتی کے اوزار ہیں


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent