Ticker

6/recent/ticker-posts

انسداد جبری مذہب بل, غیر اسلامی اور غیر آئینی 

Anti-forced religion bill, un-Islamic and unconstitutional

کالم نگار،سید ساجد علی شاہ
ان دنوں قومی اسمبلی میں مذہب کی جبری تبدیلی کے ایک قانونی بل کے مسودے کا چرچا ہے۔ وفاقی حکومت کی وزارت انسانی حقوق اور وزارت مذہبی امور کے مابین بحث کا موضوع ہے‘ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق سے بھی مجوزہ بل کا مسودہ مانگ رہی ہے مگر اس وزارت کے طاقتور اہلکاروں کا موقف ہے کہ وہ یہ مسودہ دینے کے پابند نہیں‘ مجوزہ بل کے ذریعے کسی بھی غیر مسلم کے قبول اسلام کو جرم قرار دینے اور کسی غیر مسلم کو بذریعہ تبلیغ‘ نصیحت و حسن اخلاق اسلام کی طرف راغب کرنے والے شخص کو اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی آڑ میں سزا دلانے کا پکا بندوبست کیا گیا ہے۔ اور سندھ اسمبلی کے ارکان نے بھی اس مہم کی حوصلہ افزائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان میں ہر معاملے کو اسلام دشمن اور مذہب بیزار مغرب کی آنکھ سے دیکھنے والے چند ارکان پارلیمنٹ نے مل جل کر ایک غیر سرکاری بل پیش کردیا جس کا مقصد قبول اسلام کے رجحان کی حوصلہ شکنی تھا‘ سینٹ کی مجلس قائمہ نے سینٹر انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں ملک بھر سے حقائق اور اعداد و شمار جمع کئے تو یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ سندھ سمیت کسی صوبے میں مذہب کی جبری تبدیلی کا ایک بھی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا‘پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواہش مند عمران خان کے دور حکومت میں مجوزہ بل منظور ہو گیا تو 18 سال سے کم عمر کا کوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کرسکتا اور زیادہ عمر کے شخص کو قبول اسلام کے بعد تین ماہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے ارادے سے باز آئے اور باطل مذہب پر قائم رہ سکے۔ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک میں کثیر تعداد نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کئے بغیر محض مسلمان تاجروں کے حسن عمل اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا‘ جو مجوزہ بل کی روشنی میں ناقابل قبول عمل ہے جبکہ اس بل نے غیر مسلموں کے لیے تبلیغ اسلام کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل اب تک اس بل کی منظوری میں حائل ہیں مگر طاقتور لابی ان دونوں سے بالا بالا غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کی مہم چلا رہی ہے‘

سیکولر، لادینیت اور مغربی  ذہنیت کے دلدادہ حکمران  لابی کی سندھ اسمبلی میں جبری مذہب قانون کے بل کو پیش کرنے کے بعد اب ان کا ٹھکانہ شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق بن گئی ہے اسلامی فلاحی ریاست  پاکستان کو بدنام اور سیکولر بنانے کی سازشیں عروج پر پہنچ چکی ہیں  ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں بیٹھے  سیکولر، لبرل لادین امریکی  گماشتوں نے چند ایک من گھڑت اور جھوٹے مقدمات کا بناو سنگھار بنا کر پھر انہیں اپنے چینل کی بریکنگ نیوز کی  ہیڈ لائن بنا کر ایسا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسے پاکستان میں مسلمان بندوقیں اُٹھائے چاروں جانب گھوم رہے ہیں اور ہندوئوں کو پکڑ پکڑ کر مسلمان بنا رہے ہیں۔ اس جبری بل کے خلاف14؍ستمبر کو آسلام آباد اور 18 ستمبر کو تنظیمی دورے کے دوران رحیم یارخان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا حافظ سید محمد کفیل شاہ بخاری نے"PROHIBITION FORCED CONVERTION BILL 2021'' انسدادجبری تبدیلی مذہب بل 2021 کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ  یہ بل مکمل طور پر غیر اسلامی ،غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ،اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق فرد کو مذہب کے اختیار میں مکمل آزادی حاصل ہے ، اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ۔حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لانے سے پہلے اس کے لئے  لابنگ کررہی ہے،حالانکہ خودآئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق چیئرمین بھی اپنے دورمیں اس بل کو غیراسلامی اور غیرآئینی قراردے چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل بیرونی ایجنڈے پرکبھی ہمارے خاندانی نظام کی بربادی کے لیے گھریلو تشدد بل لایا جاتا ہے اورکبھی مذہب کامعاشرہ میں متحرک اورمؤثر کردارختم کرنے کے لیے وقف املاک بل لاکرمرضی کے قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ اب تبدیلی مذہب کے عنوان سے اٹھارہ سال سے کم عمرافرادپر قبول اسلام روکنے کے لیے قانون سازی کی مہم جاری ہے جو درحقیقت اسلام مخالف قوانین کو پاکستانی اکثریتی مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے،کیونکہ اگر اس مجوزہ قانون کو موجودہ صورت میں لاگو کیا جاتاہے تو کوئی ایک بھی اٹھارہ سال سے کم عمرِفردقانوناً اسلام قبول نہیں کرسکے گا بل کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھاجائے گا کہ اس نے اپنامذہب تبدیل کیاہے،جب تک کہ وہ شخص اٹھارہ سال یا اس سے بڑا نہ ہوجائے۔جو بچہ بلوغت کی عمرکو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کوتبدیل کرنے کا دعویٰ کرتاہے،اُس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھاجائے گا اورنہ اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔جبری مذہب کی تبدیلی میںملوث افرادکوپانچ سے دس سال تک سزااورجرمانہ ہوگا۔اس بل میں ایسی کڑی شرائط موجودہیں کہ اب کم عمروں کے لیے اسلام قبول کرناعملاً ناممکن بنادیاجائے گا۔ہمارے نزدیک یہ بل جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل نہیں ،بلکہ اسلام کو قبول کرنے سے جبراً روکنے کا بل ہے۔یہ د رست ہے کہ جبراً کسی شخص کو مسلمان نہیں بنایاجاسکتا،لیکن شریعت مطہرہ کی رُوسے جو فردبھی باہوش وحواس ،بلاجبر واکراہ اور بارضا ورغبت اسلام قبول کرتاہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ اس فردکوقبول اسلام سے روکے۔اگر جبراً مسلمان بنانادرست نہیں تو بالجبراسلام قبول کرنے سے روکناکہاں کا انصاف ہے۔یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے بھی مترادف ہے۔مجوزہ قانون پاکستان کے آئین کے اصولوں کے برعکس، شریعت اسلامیہ کے منافی اورعدل وانصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔اسلام ہرعمرکے افرادکے قبول اسلام کا خیرمقدم کرتاہے۔جہاں تک کم عمرافرادکے قبول اسلام کا سوال ہے تو اسلامی تعلیمات اورہماری تاریخ اس کی شاہدہے کہ سیدناعلی المرتضیٰؓ نے دس سال کی عمرمیں اسلام قبول کیا،جبکہ سیدنا زیدؓ ابتدائی عمرمیں مشرف بہ اسلام ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنامنہ بولابیٹا بنایا۔بچپن میں اسلام کے قبول کرنے کی بیسیوںمثالیں موجودہیں کہ کم عمر نومسلمین اسلام کی نعمت سے سرفرازہوئے تو اسلام نے ان کا مکمل تحفظ کیا۔اُن کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے اوراُن کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔مواخات مدینہ اس کی واضح مثال ہے۔ہمارے اہل اقتدارجوریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں،اُنہیں اسلام کی ان زریں روایات سے سبق لیتے ہوئے قبول اسلام کرنے والے نومسلمین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے،اُن کی کفالت کا انتظام وانصرام کرکے اُن کی حوصلہ افزائی اوردل جوئی کا سامان کرناچاہیے اورقرآن مجیدکے حکم کے مطابق اُن کی تالیف قلب کا اہتمام کرناچاہیے۔بل کی مزید ایک اورشق پر غورکیجیے کہ نو عمر اسلام قبول کرنے والے کو 21 دن اور 18 سال کے بعداسلام قبول کرنے والے کو 90 دن کی مہلت دینا کہ وہ اپنے فیصلہ پر مزید غور و خوض کرے دراصل مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران نومسلمین اوران کے خاندان والوں کو ڈرا دھمکا کر اسلام کو اُنہی ںترک کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔سوال یہ ہے کہ اگر نوعمرکا اسلام قابل قبول نہیں تو پھر یہ بتایاجائے کہ اگر دومیاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں توکیااس مجوزہ قانون کایہ مطلب نہیں ہوگاکہ اُن کے بچے اٹھارہ سال کی عمرکو پہنچنے تک غیرمسلم ہی تصورکیے جائیں گے۔آج کے اخبارمیں وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری نے بھی ہمارے اس موقف کی تائیدکردی ہے کہ تبدیلی مذہب کے لیے عمرکی قیدنہیں رکھی جاسکتی۔لہٰذااب حکومت کو بھی اپنے موقف میںبھی تبدیلی پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب بل قادیانیوں کی خوشنودی اورفتنہ قادیانیت کے فروغ کا سبب بنے گا۔اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتدکی سزانافذکرکے فتنوں کا دروازہ عملاً بندکیاجائے۔ یاد رکھیے!

یہ بھی پڑھیں : چائلڈ لیبر کی سنگین صورتحال


پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔اسلام ہی ہمارے وطن کی شناخت اورپہچان ہے۔ہم اس ملک کی شناخت کودھندلانے اوراسلام کے تشخص کو مٹانے کی ہرسازش کو ناکام بنادیں گے اورایسے تمام غیرآئینی ہتھکنڈوں اوراسلام سے متصادم قانون سازی کی پوری قوت سے مزاحمت کریں گے۔ہم تبدیلی مذہب بل کو مستردکرتے ہیں میری تمام لکھاریوں سے گذارش ہے کہ آج سے مجوزہ قانون کے متعلق بھرپورعوامی آگاہی مہم  شروع کی جائے اور  اس سلسلہ میں عوام الناس میں بھرپور تشہیری مہم چلائی جائے کیونکہ قیامت کے دن رب کی عدالت میں ہمیں اپنے قلم کا بھی حساب دینا ہوگا ہمیں چاہیے کہ اپنے قلم کے زور بازو پر عوام اور حکمرانوں کواُن کی ذمہ داری کا احساس دلائیں  کہ وہ اپنے حلف اورمنصب کی پاسداری کریں اورآئین پاکستان اوراسلام کے تحفظ کویقینی بنائیں۔
انسداد جبری مذہب بل, غیر اسلامی اور غیر آئینی


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent