Ticker

6/recent/ticker-posts

مطلبی رشتے، قرآن سے دوری اور ہماری ذلت

Meaning relationships, distance from the Qur'an and our humiliation 

تحریر سیدساجد علی شاہ

آج  کے جس جدید دور میں ہم جی رہے ہیں یہ لالچی، طمع، خوشامد اور منافقت کا دور ہے انسانی رشتے ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں ہر کوئی اپنے اپنے شعبوں میں اپنے اپنے مفاد کے حصار میں مقید ہیں، باہم رشتوں کی بنیاد اگر خلوص پر قائم نہ ہو تو چاہت کے سفر کا آغاز کیونکر ممکن ہے جب ہر نئے بندھن کے پیچھے مطلب، حرص اور سازش کا جال ہوتو پھر مصلحت کی ڈور ہی انھیں باندھے رکھتی ہے ایسے رشتے محبت کی ڈور سے عاری ہوتے ہیں، چاہیے تو یہ کہ سچ کو تھاما جائے خلوص اور محبت سے اسے سنوارا جائے کیونکہ خلوص اور محبت کے رشتوں سے خوشی حاصل ہوتی ہے، خوشی سے احساس جنم لیتا ہے اور احساس سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت سے اعتبار جنم لیتا ہے، اعتبار سے اصلاح ہوتی ہے اور اصلاح سے کردار بنتا ہے اور کردار سے شخصیت و حیثیت دونوں کا تعین ہوجاتا ہے، بات حیثیت اور شخصیت کی ہوتو یہاں زمانہ اپنا رنگ دکھاتا ہے آج انسان کا قد اس کے ذاتی اوصاف سے نہیں بلکہ اس کی دھن دولت سے ماپا جاتا ہے جو جتنا دولت مند ہے وہ اتنا ہی باعزت اور شریف سمجھا جاتا ہے اور اس تعلقات بڑھانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے شخصی جوڑ توڑ کے اس عمل میں حقوق العباد کو جس طرح روندا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، خلوص اور محبت کو دنیاوی لالچ میں پامال کیا جاتا ہے غیرت کے نام پر غریب ورکر کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، محبت کے نام پر دوستی اور بھائی چارے کو رسواء کیا جاتا ہے اور سچے بندے اور سچی کو دھتکار دیا جاتا ہے محنت پر شب خون مارا جاتا ہے اعتبار کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور جھوٹ، منافقت، ریاکاری اور غیبت سے کام چلایا جاتا ہے جو انسان عزت اور قدر کا مستحق ہے اسے عزت اور قدر سے محروم کر دیا جاتا ہے دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات اور مفادات کی راہوں کو ہموار کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی مادی و معاشی لحاظ سے ترقی کا دعویدار تو ہوتا ہے لیکن روحانی طور پر وہ مفلوج ذہنیت کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے جب روحانی رشتے اخلاقی طور پر اس قدر کمزور ہو جائیں تو پھر وہ توڑ پھوڑ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں باہم رشتوں میں استحکام سے گھر اور رشتے بنتے ہیں، گھر سے خاندان، خاندان سے معاشرہ، معاشرے سے ملک، ملک سے پوری دنیا تشکیل پاتی ہے لیکن اگر  رشتوں کی بنیاد ہی دل کے کھوٹ، دماغ کے فتور، مطلب کے انگار اور جھوٹ کے انبارپر رکھی گئی ہوتو پھر انسان اخلاقی، روحانی، معاشرتی، معاشی ہر سطح پر تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے اور گمراہی کی ایسی دلدل میں جا پھنستا ہے کہ جس سے نکلنے کی اسی توفیق نہیں ہوتی، وہ ظاہری دھوکے میں جیتا رہتا ہے اور بے بسی میں مر جاتا ہے، زندگی ایک ٹھوس حقیقت ہے اسے ہر نفس کو تسلیم کرنا ضروری ہے زندگی کی اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اسے قیمتی بنایا جاسکتا ہے ہماری زندگی اعمال کی مرہون منت ہے اس میں نشیب بھی ہیں، فراز بھی، مہکتے چہکتے چمن بھی ہیں اور ویران چٹیل میدان بھی، دکھ درد، خوشی و غم ہماری اس زندگی کا لازمی حصہ ہیں کہتے ہیں کہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہےابھی ایک فرض نبھایا کہ دوسرا فرض سامنے آ کھڑا ہوا، زندگی وہ طویل سفر ہے جسے قوت ارادی اور حسن عمل کے ساتھ طے کرنے سے ہر قدم پر خوشی میسر آسکتی ہے وہ خوشی جو ہمیشہ زندگی میں در آنے کےلیے منتظر رہتی ہیں ان میں کچھ سچی خوشیاں ہوتی ہیں اور کچھ جھوٙٹی، جھوٹی خوشیاں وقتی ہنگاموں اور غیر فطری عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں جو پائیدار ہوں، محض چند لمحوں اور چند گھنٹوں کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہوں، وہ آپ کا ساتھ صرف اس زندگی میں نہیں بلکہ اس زندگی میں بھی دیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور یہ نصیب ہوتی ہیں رب تعالی کی سچی بندگی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و الفت میں ڈوبی ہوئی اطاعت سے، آپ نے کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیا، کسی کے دکھ درد کو بٹا دیا تو سمجیے آپ کی زندگی حسن عمل سے عبارت ہے ہم سب بظاہر مشکلات میں گھرے ہوں تب بھی کیف و سرور کے عالم میں ہوں گے اور ہم سب جب اس دنیا سے رخصت ہوں گے تو تب ہمارا دامن نیکیوں کے جگ مگ کرتے ہیرے جواہرات سے مالا مال ہوگا معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا، لیکن مجال ہے کسی کو کوئی انفیکشن ہو جائے۔یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں امام مسجد یا مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیا سے خط پڑھواتے تھے ۔ ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا خط لکھ بھی دیتا تھا پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا، امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو نصر من اللہ وفتح قریب پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ہے نہیں ’’ٹھیک ہے"کہا کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بزرگ آدمی دیکھنے کی تعبیر

موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی، جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا  دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں پہلے تو لوگ بھانے سے دودھ لینے جاتے تھے گفتگو اور  باتیں ہی باتیں ہوتی تھیں وقت ہی وقت تھا گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہوتی تھیں محلے کے بابے حُقہ پی رہے ہوتے تھے اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کر رہے ہوتے تھے جن گھر وں میں "ٹی وی" آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے، مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا اور فرج کے بغیر بھی مٹکے اور صراحیوں کا پانی ٹھنڈا رہتا تھا۔ لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا ہے ہم "قدیم"سے "جدید"ہوچکے ہیں اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔ "دستر خوان" شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔"منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر" میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں اِس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے، جس میں، ڈپریشن، سر درد، بلڈ پریشر، نیند اور وٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوتی ہیں  آخر ایک چلتے چلتے ایک واقعہ یاد آگیا

یہ بھی پڑھیں : آزاد کشمیر کا روشن ستارہ قلم کار شبیر احمد ڈار

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک شکاری پرندے پکڑ کر بازار میں چند داموں کے عوض فروخت کرتا تها، ایک دن اس بازار میں ایک نیک دل آدمی کا گزر ہوا تو اس نے سوچا کہ ان آزاد پرندوں کو قید کرنا تو بہت بڑا گناہ ہے، اس لئے اس نے ان پرندوں کو آزاد کرنے کا سوچا اور شکاری سے سارے پرندے خرید لئے، لیکن آزاد کرنے سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ شکاری تو پهر ان پرندوں کو پکڑ کر قید کر لے گا، اس لئے وہ سب پرندوں کو گهر لے گیا اور وہاں ان کو چند الفاظ سکهانے شروع کئے کہ ہم سیر کرنے باغ نہیں جائیں گے، اگر باغ گئے تو شاخ پر نہیں بیٹھیں گے اور اگر شاخ پر بهی بیٹھ گئے تو جیسے ہی شکاری آئے گا ہم اڑ جائیں گے۔ ایک عرصہ محنت کے بعد وہ نیک دل آدمی اپنی اس محنت میں کامیاب ہوا اور پرندے وہ بولی بولنے لگے، نیک دل آدمی بہت خوش ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور اس نے ایک ایک کرکے سارے پرندے آزاد کر دیئےاب ہوا یوں کہ دوسرے دن صبح سویرے جب شکاری باغ میں پرندیں پکڑنے گیا تو کیا دیکهتا ہے کہ پرندے شاخوں پر بیٹھے گنگنا رہے تهے کہ ہم سیر کرنے باغ نہیں جائیں گے اور اگر باغ گئے تو شاخ پر نہیں بیٹھیں گے اور اگر شاخ پر بیٹھ گئے تو جیسے ہی شکاری آئے گا ہم اڑ جائیں گے، شکاری یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اب تو ان پرندوں کی وہ منہ مانگی قیمت وصول کر سکے گا اور یوں اس نے وہ پرندے پکڑ کر مہنگے داموں فروخت کر دئیے پرندوں نے تو صرف الفاظ رٹ لئے تهے ان کو کیا معلوم تها کہ باغ کیا چیز ہے؟ شاخ کیا ہوتی ہے؟ اور شکاری کس بلا کا نام ہوتا ہے؟ اور اڑنا کسے کہتے ہیں؟ آج ہم مسلمانوں کا بهی یہی حال ہے، قران کو ہم سمجهتے نہیں تو سینوں میں کیسے اترے گا؟ بس رٹے رٹائے الفاظ یاد ہیں جنھیں ہم نماز میں پڑھتے ہیں، برکت کے لیے پڑتے ہیں، مصیبت کے آنے پر اور سفر پر جانے سے پہلے اور رمضان کے روزوں میں خالص ثواب کی نیت سے ہم ان رٹے ہوئے الفاظ کا ورد کرتے ہیں۔ان پرندوں کی طرح ہمیں بهی قانون کے اس کتاب کی سمجھ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہم سے کیا مطالبات کئے ہیں؟ کون سے احکامات دیئے ہیں اور کن چیزوں سے روکا ہے؟ کامیابی کے رموز کیا ہیں اور خسارے کا رستہ کون سا ہے؟ ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے؟ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے اور آج سے ہی قرآن مجید کا ترجمہ خود بھی پڑھنا شروع کر دینا چاہیے اور اپنے بچوں کی پڑھائی کا بھی لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
مطلبی رشتے، قرآن سے دوری اور ہماری ذلت


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent