Ticker

6/recent/ticker-posts

رحیم یارخان پولیس کپتان کے جذبات و خیالات اور زمینی حقائق؟

Rahim Yar Khan Police Captain's Emotions and Thoughts and Ground Facts?

 تحریر جام ایم ڈی گانگا

تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ضلع رحیم یارخان پنجاب کے دیگر اضلاع کی مناسبت سے الگ اہمت کا حامل ہے جہاں تعیناتی کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے تحفظ عزت کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنانے کےلئے عوام و سائلین کے ساتھ پولیس کا رویہ اور رسپانس مثالی ہونا چاہیے ، اس نصب العین پر عمل درآمد کرواتے ہوتے ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے آغاز کیا گیا ہے جس پر اب پولیس تھانوں کی سطح پر بھی عمل درآمدشروع ہو چکاہے ، بد عنوانی ، پبلک سے ناروا سلوک اور لاپرواہی قطعاً برداشت نہیں گزشتہ دو ماہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیوں کا عمل تیز ی سے جاری ہے جرم کے مرتکب پائے جانے والے گرفتار ملزمان کو جوڈیشل کرنا اور مکمل چالان کرنا جس میں 30 سے 38 فیصد  تک اضافہ ہوا ہے۔ پولیس فورس میں اصلاحات اور بہتری لانے کےلئے 200 سے زائد پولیس ملازمین کو تبدیل کیا گیا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی اور آنے والے شہری کی دادرسی کو یقینی بنایا جا سکے ضلع رحیم یار خان کچہ کا علاقہ وسیع رقبہ پر مشتمل ہے جو مختلف ضلعوں اور صوبوں سے جا ملتا ہے اور وہاں پر موجود جرائم پیشہ افراد عام افراد سے مختلف مزاج اور جرم کا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں ان پر کنٹرول رکھنے کےلئے سرکل صادق آباد کو دو حصوں سرکل بھونگ اور سرکل صاق آباد میں تقسیم کیا گیا ہے جو وقت کی اہم ضرورت تھی تاکہ پولیس کی رٹ اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے محکمہ پولیس میں سیاسی وسفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے مگر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو عزت دینا تمام صوبائی ملازمین کی ذمہ داری ہے جبکہ عوام کے جائز کام کروانا ان کا حق ہے مگر ان کا میرٹ پر اثر انداز ہونا دو الگ الگ چیزیں ہیں ،محکمہ پولیس کے آفسران سمیت 3100 ملازمین کو حکم دیا گیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی سماجی شخصیت انصاف کے تقاضوں پر اثر انداز ہوگی تو اس کے ذمہ دار وہ پولیس آفیسر ہوگا جس نے میرٹ کو یکسو نہ کیا ہو گا۔ان خیالات کا اظہار ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ایس ایس پی کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء نے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ضلع رحیم یار خان میں تعیناتی سے قبل سابق ڈی پی او ساہیوال ،سابق ڈی پی او لیہ، سابق ڈی پی او بھکر،سابق ایس ایس پی آپریشنز گوجرانوالہ ، سابق ایس ایس پی گلگت اورا ے آئی جی ڈوپلپمنٹ سی پی او لاہور تعینات رہ چکے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان میں تعیناتی کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے ان کی تعیناتی اس وقت عمل میں لائی گئی جب صادق آباد کچہ کے ڈاکوؤں کی طرف سے 9 افراد بہیمانہ قتل کا واقع پیش آیا اور لاء اینڈ آڈر کی صورتحال یکسر مختلف تھی کچہ سمیت ضلع بھر میں جرائم کو کنٹرول کرنا اور ملزمان کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لینا ضروری ہے جس پرتیزی سے عمل درآمد جاری ہے

یہ بھی پڑھیں : اصلی پولیس کے ساتھ مل کر پولیس مقابلے کرنے والی جعلی لیڈی پولیس آفیسر گرفتار

ان کا موٹو ہے کہ ”تحفظ عزت کے ساتھ “ عوام کے بہت سے مسائل ایسے ہوئے ہیں کہ اگر پولیس آفیسر ان کے ساتھ عزت و ہمدردانہ انداز میں پیش آئے تو عوام کی آدھی تکلیف اسی وقت ختم ہو جاتی ہے اور ان کے مسائل فوری حل ہو جاتے ہیں ، دفتر ، تھانہ ، پولیس چوکی اور کسی بھی مقام پر جب بھی کسی شخص کا پولیس سے رابطہ ہو تو پولیس کا حسن اخلاق اور رویہ اسے بتائے کہ پولیس اس کے ہمدرد ہیں اور اس کی شکایت کے ازالہ اور دکھ کے مداوا کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔محکمہ پولیس کا اولین فرض عوام کی جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے جس کی ادائیگی کے لیے ہمیں ریاست نے وسائل اور اختیارات دے رکھے ہیں جو کہ ریاست اور عوام کی امانت ہیں ان کا درست اور بروقت استعمال ہماری ذمہ داری ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی اور لاپرواہی ہرگز ہرگز قبول نہیں۔ جرم کو مکمل طور پر ختم کردینا اور اس کے خاتمے کےلئے کوشاں رہنا دو الگ چیزیں ہیں کبھی بھی جرم کا 100 فیصد خاتمہ ممکن نہیں جبکہ جرم کی روک تھام پر 70 فیصد عبور حاصل کر لیا گیا ہے،پولیس کا بنیادی یونٹ تھانہ ہے جہاں پر لوگ سب سے پہلے داد رسی اور اپنی شکایات کے اندراج کے لیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا فوکس بھی تھانہ ہے وہ چاہتے ہیں پہلے قدم اور تھانہ جیسے یونٹ کے ڈور سٹپ پر لوگوں کو انصاف اور تحفظ ملے اور انہیں کبھی بھی کسی اور دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پڑے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تھانہ پر انصاف اور تحفظ ناپید ہے کچھ معاملات میں لوگ عدم اطمینان ، قانون سے زیادہ اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھی درخواست بازی کرتے ہیں تاکہ مسئلہ کو بڑھایا اور الجھایا جا سکے ان کے دروازے ہر عام و خاص کے لیے یکساں طور پر کھلے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیادوں پر کھلی کچہری کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے کہ ہر آنے والی شہری کی داد رسی ہو سکے پولیس اصلاحات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی پی او کیپٹن (ر) محمد علی ضیاءنے کہا کہ پولیس ملازمین بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اگر ان کا سینئر آفیسر ان کی بات نہ سنے اور ان ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرئے گا تو یہ ہی ملازمین تھانوں میں آنے والے شہری و سائلین کے ساتھ بھی ناروا سلوک رکھیں گے اس لیے ہفتہ میں ایک دن ملازمین کےلئے وقف ہے کہ ہر پولیس اہلکار کے مسائل سنیں جائیں اور ان موثر حل کیا جا سکے مگر ساتھ ہی دوسری جانب فرائض میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب اہلکار کو بھی معافی نہیں ہے جو جتنا ذمہ دار ہوگا اس کو اتنی ہی سزا دی جائے گئی بدعنوانی اور عوام سے ناروا سلوک رکھنے والے ان کی ٹیم میں نہیں چل سکیں گے اس لیے وہ امید کرتے ہیں کہ تمام اہلکار اس بات کے مرتکب نہیں ہوں گے محمد علی ضیاء کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی کے فوراً بعد احکامات جاری کئے گے ہیں کہ تمام پولیس افسران معاشرہ سے جرائم کی بیخ کنی اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل برﺅے کار لاتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں مجرمان اشتہاریوں ، منشیات فروشوں ، ناجائز اسلحہ برداروں اور دیگر سماجی برائیوں اور سنگیں جرائم میں ملوث ایکٹو کریمینلز کے خلاف بھر پور اور موثر کاروائیاں عمل لائیں لیکن یاد رکھیں کہ وہ نہ تو فرضی کاروائیوں کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی جھوٹے مقدمات کو آپ لوگ حقائق پر مبنی کاروائیاں کریں اور کسی بھی شہری کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج نہ ہونے پائے۔ کسی قسم کے جرم ، ظلم اور واردات کی اطلاع ملے تو اس کا رسپانس ٹائم ان دو چیزوں پر فوکس کریں اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں زیر تفتیش مقدمات کو میرٹ پر یکسو کریں اور مطلوب ملزمان کو گرفتار کر کے مکمل چالانات عدالتوں میں پیش کئے جائیں، نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی پر کاروائی عمل میں لاتے یوئے مقدمات درج کئے جائیں تاکہ معاشرہ میں امن وامان کو برقرار رکھا جا سکے اور جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جس پر عمل درآمد جاری ہے اور مقدمات کو یکسو کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرکے ان سے ریکوری حاصل کرکے داد رسی کرنا اور ملزمان کو جوڈیشل و چالان مکمل کرنے 30 سے 38 فیصد تک  مزید اضافہ ہوا ہے ڈی پی او رحیم یار خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیاسی مداخلت لفظ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن عوامی نمائندوں کو عوام نے منتخب کرتے ہوئے عزت سے نوازا ہے ان کو عزت دینا ہر آفیسر و اہلکار کی ذمہ داری ہے کیونکہ سیاسی شخصیات کے پاس بھی عوام بھی ایسے ہی اپنے مسائل لے کر جاتی ہے جیسے سرکاری دفاتر میں آتے ہیں تو سیاسی لوگ عوام کے مسائل کے حل کےلئے رابطہ بھی کرتے ہیں مگر ان کا انصاف کی فراہمی پر اثر انداز ہونا اور سرکاری کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گئی اس لیے تمام پولیس افسران و اہلکاروں کو حکم دیا گیا ہے کہ میرٹ سے ہٹ کر کوئی بھی کام کیا گیا تو اس کا ذمہ دار وہ ہی آفیسر ہوگا اور اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گئی بدعنوانی اور کرپشن کےخاتمے کے لیے معاشرہ کی تمام اکائیوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہے ، بدعنوانی بے ضمیری کی سب سے بڑی شاخ ، میرٹ اور انصاف کی قاتل ہے، پولیس کے ہر اہلکار کو اپنی نوکری فرض اور عبادت سمجھ کر کرنی چاہیے بدعنوانی اور کرپشن ایسے گڑھا ہے جو بھی اس میں گرا ذلت اور رسوائی سے لت پت ہو گیا اس کے لیے آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینے کے بدعنوانی جیسی لعنت کو ختم کرنا ناگزیر ہے جس کے لیے معاشرے کے ہر ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بدعنوانی اور کرپشن یک طرفہ عمل نہیں اس لیے دونوں جانب سے دونوں طرف سے انکار اس شر کے خاتمے کی شرط ہے اس کا خاتمہ صرف اداروں اور حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا بد عنوانی کے خاتمے میں ہی آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی بقاء ہے اس لیے ہر شخص کو خود احتسابی کو شعار بنانا ہو گا کرپٹ عناصر کسی بھی محکمہ میں ہوں کلنک ہوتے ہیں۔ کچہ کا علاقہ وسیع رقبہ پر مشتمل ہے جو مختلف ضلعوں اور صوبوں سے جا کر ملتا ہے کچہ کے جرائم پیشہ افراد مخصوص وقت میں جرم کرتے ہیں اور روپوش ہو جاتے ہیں جن کے خلاف حکمت عملی بنائی گئی ہے جس کے تحت صادق آباد سرکل کو دو حصوں بھونگ سرکل اور صادق آباد سرکل میں تقسیم کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی جس کا مقصد وہاں کی عوام کو تحفظ کی یقین دہانی کروانا اور جرائم کا خاتمہ ہے جس کے رزلٹ جلد ہی سب کے سامنے ہوں گے ۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرایس ایس پی کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء نے کہا کہ وہ محکمہ کے ہر اہلکار کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایمانداری ، دیانت داری اور فرض شناسی کو شعار بنا کر خدمات ادا کریں اس میں جو اطمینان اور سکون ہے وہ کسی اور طریقہ میں نہیں حاصل ہو سکتا اگر کسی شخص کو کسی اہلکار سے اس قسم کی شکایت ہو تو وہ کھلی کچہری جو کہ روزانہ کی بنیاد پر وہ کر رہے ہیں ثبوت کے ساتھ درخواست دے سکتا ہے انہوں نے عوام سے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر بدعنوانی جیسے ہمیشہ کے بند کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر پوری قوت کے ساتھ کام کریں

یہ بھی پڑھیں : لائف جوبلی انشورنس میں نوکریاں

محترم قارئین کرام، ضلع رحیم یارخان کے پولیس کپتان کی بہت ساری باتیں اچھی ہیں ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں بہت ساری باتوں میں تشنگی ہے کئی معاملات ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور سے نسبت رکھتے ہیں یقیناََ انصاف کے حصول کے لیے پولیس کے مسائل کا حل اور پولیس کے نوجوانوں کی مجبوریوں و مشکلات کو حل کر بھی آفیسران بالا اور حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کوئی مانے یا نہ مانے بہت ساری اصلاحات کے باوجود بھی جس میں بہت ساری کوتاہیاں ابھی تک موجود ہیں انشاء اللہ پولیس کے مسائل ہم علیحدہ سے تفصیلی کالم لکھیں گے ہم واپس اپنے آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں جہاں جہاں ُ ُ اگر مگر ٗ ٗ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یقیناََ بہت ساری خرابیوں اور ناانصافیوں کی بنیاد بھی وہیں سے پڑ جاتی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہے ذرا ڈی پی او رحیم یارخان کی اس بات اور زمینی حقائق کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں. یقین کریں شیشہ صاف نظر آ جائے گا  ُ ُمحکمہ پولیس میں سیاسی وسفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے مگر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو عزت دینا تمام صوبائی ملازمین کی ذمہ داری ہے ٗ ٗ مسٹر ڈی پی او کیا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا کہ کسی ایم این اے، ایم پی اے، صوبائی یا وفاقی وزیر کو عزت دینے کا یہ کونسا کا طریقہ اور انصاف ہے کہ ایک مستاجر کسی بیوہ خاتون اور اس کے یتیم بچوں کی زمین ٹھیکے پر حاصل کرے بد نیت ہو جانے پر ٹھیکہ دینا بند کر دے ان کی زمین پر قبضہ کرکے زمین کو ہتھیانے کے لیے جھوٹے و فرضی اقرار نامہ بیع کے ذریعے مختلف لوگوں سے جھوٹے کیس دائر کرے اور کروائے طویل انکوائری میں جھوٹ اور فراڈ کا پردہ چاک ہونے پر بھی اصل بینیفشریز کے خلاف بھی قانون و پولیس حرکت میں نہ آئے بااثر سیاسی پشت پناہی کا حامل ناجائز قبضہ گیر بیوہ اور یتیم بچوں کی زمین کے خسرہ جات کی توڑ پھوڑ کرواتا پھرے متاثرین کی جانب سے درخواست دیئے جانے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس کے خلاف کاروائی کی بجائے اسے تحفظ فراہم کیا جاتا رہے کیا یہ ظلم و زیادتی، سراسر ناانصافی اور قانون قتل نہیں ہے کیا یہ ناجائز قبضہ گیروں کی سرپرستی تصور نہیں کی جائے گی سب سے اہم بات کہ قبضہ گیر کا اس زمین پر دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے کہیں سے بھی ایک فیصد بھی حق نہ ہو تب بھی اس لاڈلے قبضہ گیر کے فریب، چکر بازیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جائے محض اس لیے کہ اس قبضہ گیر کے سرپرست صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار ہیں جو موجودہ حکومت میں اتنے طاقت ور ترین منسٹر ہیں کہ قانون کے مطابق میرٹ پر فیصلہ اور انصاف کرنے والے آفیسر کا فوراََ تبادلہ کروا دیتے ہیں میرٹ و انصاف پسند آفیسر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر جہانزیب لابر کی مثال سب سامنے ہے آفیسران اسی ڈر و خوف سے لاڈلے قبضے گیر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے بلکہ اسے تحفظ فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں یا پھر معاملے کو لٹکائے ہوئے ہیں

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بندر دیکھنے کی تعبیر

مسٹر ڈی پی او آپ اور پاکستان کی تمام ایجنیسیاں بے شک اس اہم کیس کی چھین بین کر لیں بلکہ میری تو وردی اور بغیر وردی والی تمام محب وطن ایجنیسیوں سے اپیل ہے کہ اس کیس کا ضرور تفصیلی جائزہ لیں اور باقاعدہ رپورٹ کریں کیا بیوہ شاہدہ تسنیم درانی، یتیم لڑکی حنا خورشید درانی وغیرہ کی 46 ایکڑ سے زائد قیمتی زمین واقع موضع محمد پور قریشیاں، چک76 این پی تھانہ کوٹسمابہ تحصیل و ضلع رحیم یارخان پر مخادیم وزراء بھائیوں کے چہیتے رشید کورائی نے ناجائز قبضہ نہیں کر رکھا؟ تھانہ اے ڈویژن رحیم یارخان میں درج مقدمہ نمبر 1071/20 کے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہ کرنے کی کیا وجہ ہے کیا یہ ظلم و زیادتی بھی عوامی نمائندگان کو عزت و مقام دینے کی پالیسی کا حصہ ہے.خدارا کچھ نہ کچھ تو میرٹ اور انصاف کیجئے.محکمہ واپڈا سب ڈویژن میانوالی قریشیاں کی عزت افزائی پالیسی، لاڈلے بجلی چوروں سمیت انشاء اللہ باقی بہت ساری باتیں پھر کسی وقت سہی

یہ بھی پڑھیں : صحت کارڈ کیا ہے اور یہ کیسے استعمال ہوگا؟

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent