Ticker

6/recent/ticker-posts

لاء اینڈ آرڈر اور ضلعی پولیس

Law and order and district police

تحریر احمد زبیر

 گزشتہ چند ماہ سے ضلع بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خاصی خراب ہے ، شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں ، صحافی اور شہری پولیس سے خاصے نالاں ہیں ،ضلعی پولیس کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہے  ، ضلع بھر میں چوری ، ڈکیتی ، اغوا ، رہزنی اور قتل کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔جبکہ دوسری جانب شدید تنقید کی زد میں ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں پولیس اپنے مشن میں مصروف عمل ہے۔

دراصل ماتحت پولیس ملازمین ہمیشہ ضلعی کپتان اور اعلی پولیس قیادت کی پالیسی کے مطابق چلنے پر مجبور ہوتے ہیں ، پولیس کپتان ہی دراصل اپنے ماتحت ملازمین کو وسائل فراہم کرتا ہے اور انکی بھرپور سرپرستی کرتے ہوئے انہیں جرائم کی بیخ کنی کے مشن سونپتا ہے اور ماضی میں کئی پولیس کپتان ایسے گزرے ہیں جن کی کپتانی میں ضلع بھر سے جرائم پیشہ عناصر بیرون ممالک فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے تب بھی یہی پولیس تھی اور یہی چھوٹے آفیسران تھے مگر کپتان کی سرپرستی ، وسائل کی فراہمی اور اعتماد نے پولیس فورس کو حقیقی معنوں میں ہمارا محافظ بنا دیا تھا ۔

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بلغم دیکھنے کی تعبیر

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آفیسران کی جانب سے تھانوں میں مار نہیں پیار کا حکم ہے ، کوئی پولیس آفیسر کسی قاتل ، ڈاکو ، رسہ گیر کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا اور نا ہی اس سے پوچھ گچھ کے لئے اسے وقت دیا جاتا ہے اور نتیجتاً چند دن کے اندر ہی وہ دوبارہ چھوٹ کر عوام پہ ان مسلط ہوتا ہے جبکہ دوسرا اہم مسئلہ پولیس کو ضروری وسائل کی فراہمی کا ہے ۔
وسائل کی فراہمی میں جہاں اعلی پولیس قیادت کا قصور ہے وہیں ہماری حکومت نے بھی اپنی ذمہ داری ہیں نبھائی اور جان بوجھ کر پہلے دن سے پولیس کو عوام کے کندھوں پر سوار کر رکھا ہے کہ محدود وسائل میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی کنٹرول کریں معاشرے کا توازن بھی برقرار رکھیں اور تفتیش سمیت دیگر قانونی مراحل میں خرچ آنے والے اخراجات کا بندوبست بھی خود ہی کریں ، 15 پر کی جانے والی کالز پر چند منٹوں میں ریسپانڈ کا حکم دیا جاتا ہے تو انکے لئے نئی گاڑیاں اور ڈیزل کی فراہمی بھی یقینی بنائی جانی ضروری ہے۔
پولیس ویلفیئر فنڈز کا بھی غیر منصفانہ استعمال مجموعی طور پر پولیس کے رویے کو منفی بنانے میں کردار ادا کر رہا ہے ایسے میں پڑھے لکھے اور باضمیر پولیس آفیسران بھی مجبوراً "خرچ پانی " لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اگر وہ ایسا نا کریں تو ماہ کے ابتدائی پندرہ دنوں میں انکی تنخواہیں ختم ہو جائیں اور باقی 15 دن اپنے گردے بیچ کر قانون کی عملداری کروائیں یا پھر مجبوراً کرپشن کرکے معاملات چلائیں ۔

 یہ بھی پڑھیں : سونے کے زیورات پر کٹوتی کیسے کی جاتی ہے؟

ڈی پی او رحیم یار خان صاحب کی توجہ کے لئے عرض ہے کہ جناب ماتحت ملازمین کو موثرگشت اور موثر تفتیش کی ہدایت کے ساتھ ساتھ پولیس ویلفیئر فنڈ کا درست استعمال ، تھانے کے دیگر اخراجات کی مد میں فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔
سر آپ پولیس کو بنیادی وسائل کی فراہمی اور اعتماد مہیا کریں آپکی فورس پاکستان بھر میں پہلے نمبر پر آجائے گی محکمہ میں اچھے آفیسران کے ساتھ کچھ تفتیشی اپنے آفیسران کے نام پر ڈرا دھمکا کر "مڈی" مارتے یا بھتہ خوری کرتے ہیں انکا بھی محاسبہ ضروری ہے ۔
جس طرح آپکے اردل روم میں پولیس ملازمین کو سزائیں سنائی جاتی ہیں اسی طرح اگر ان کو وسائل اور اعتماد دیں ، انشاءاللہ پولیس آپکو نتائج دے گی۔


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent