Ticker

6/recent/ticker-posts

پنجاب پولیس کے ایک گمنام سپاہی کا نوحہ

Lament of an anonymous Punjab policeman


تحریر جام ایم ڈی گانگا
محترم قارئین کرام، گذشتہ دنوں بندہ ناچیز نے رحیم یار خان کی ایک ہنس مُکھ لیڈی سب انسپکٹر میری روز کی خود کُشی کے حوالے سے کالم لکھاجو اسی صفحے پر شائع ہوا اس کے علاوہ اپنے یوٹیوب چینل پر گفتگو بھی کی مجھے پنجاب پولیس کے ایک گمنام سپاہی کا خط آیا ہے مجھے پنجاب پولیس کے جس اصلاحی سوچ کے حامل بابو نے یہ تحریر بھیجی ہے میں نے اُس سے ہوچھا کہ یہ آپ کی اپنی ہے جواب آیا میری نہیں ہے خیر میں نے سوچا کہ اس بات کو زیادہ کریدنا بھی درست نہیں ہے.جس کسی کی بھی یہ تحریر ہے ہمیں اس کے مندرجات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن جذبات و خیالات کا اظہار کیا گیا ہے پولیس ملازمین کے جن مسائل، اُن کی بارے میں عمومی طور پر جو سوچ اپنا لی گئی ہے اور پولیس ملازمین  کے ساتھ مختلف جگہوں اور مقامات پر  روا رکھے جانے والے جن رویوں کا ذکر کیا گیا ہے اس پر بات کرنا زیادہ بہتر ہے میں گمنام سپاسی کا وہ خط اور تحریر آپ سب کے ساتھ من و عن، لفظ بہ لفظ شیئر کر رہا ہوں تاکہ گمنام سپاہی کا پیغام، فریاد، اپیل، روداد، داستان، نوحہ اسی کے الفاظ اور انداز بیان کے ساتھ بیان ہو جائے رہی بات مجھے یہ تحریر بھیجنے والے پنجاب پولیس کے بابو کی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کیس کے لیے میرٹ اور انصاف ک تقاضا یہی بنتا ہے کہ بابو کو بھی گمنام ہی رہنے دیا جائے ویسے لکھنے والے پر اعتماد کرکے جو لوگ اپنے دکھ درد اور داستانیں ان کے ساتھ اس لیے شیئر کرتے ہیں کہ صیغہ راز میں رکھ کر ان کی بات متعلقہ فیصلہ ساز اتھارٹیز، ارباب اختیار اور حکمرانوں تک پہنچ جائے اور اصلاح احوال کی کوئی سبیل نکل آئے لیجئے پہلے گمنام سپاہی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں
322 پولیس ملازمین کی خودکشیاں یا قتل بلسبب پولیس ملازمین کی زندگیوں میں کیا چل رہا ہوتا ہے یہ تو اکثر اوقات تو خود پولیس ملازمین کو بھی نہیں پتہ ہوتا بے ٹائم کی ڈیوٹی، بے ٹائم کھانا، بلاوجہ بےعزتی اصل میں ہم پولیس ملازمین دوہری زندگی جی رہے ہوتے ہیں دفتر میں افسران سے بےعزتی، عدالتوں میں ججوں سے بےعزتی، نہ گھر میں بیوی بچوں ماں باپ بہن بھائی کے لیے وقت ایک فون کال پر وردی پہن کر نکل گئے کب واپسی کب کھانا کچھ پتہ نہیں نہ خوشی کے نہ غم کے، بس ایک دوہری زندگی عوام کی نظر میں بدمعاش ڈشکرا منڈھے پر کلاشنکوف یا بیلٹ میں لگا پسٹل سرکاری غنڈا افسران اور ججز سے بے عزت ہونے والا مظلوم، کارسرکار میں اپنی تنخواہ سے چالان سینٹ اپ کروانے والا عوام کی نظر میں رشوت خور اصل میں گورنمنٹ کے کاغذوں میں صرف ایک فگر ہے ون سی، ون ہیڈکانسٹیبل، ون اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر، انسپکٹر، ہم ایک نگ ہیں بس اور کچھ نہیں عوام، افسران، عدلیہ سب کی نظر میں ہم ایک روبوٹ ہیں نہ ہماری فیملی ہے نہ مجبوریاں سب کچھ ہم نے خود مینج بھی کرنا ہے اور وہ بھی بناء وسائل کے ہم جن نہیں انسان ہیں ہمیں سب پریشر رائز کرتے ہیں ہم حالات سے تنگ آکر خودکشی کر بھی لیں توکسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی اس کی کوئی انویسٹیگیشن ہوتی ہے کہ وجہ کیا تھی کیوں کی خودکشی کیا آیا وہ خودکشی تھی یا قتل بلسبب؟ میں 2/1 پولیس ملازمین کی خودکشی کے کرائم سین پر گیا ہوں ایسے ایسے جوان جن کو دیکھ کر دل ہی نہیں مانتا کہ یہ خودکشی کرسکتے ہیں کسی کو چھٹی نہیں ملی کسی کو افسران نے اردل روم میں بے عزت کیا توکسی کی بیوی لڑتی تھی کہ آپ مجھے اور بچوں کو ٹائم نہیں دیتے یہ بے مطلب کی زندگی جی رہے ہیں نہ کوئی ہم سے ہمارے کاموں سے خوش ہوتا ہے سب ناراض خواتین اہلکاروں کو محکمہ کے افسران، کلرک، محرر ہراساں کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ویسے تو ہم سب بہت ہی ڈھیٹ اور سخت جان ہوتے ہیں ہم پر چھوٹی موٹی باتوں کا تو اثر ہوتا نہیں مگر جب کبھی کوئی کمزور دل خودکشی کر لے تو ہمارے افسران اس قتل بلسبب کو نہایت ہی صفائی سے خودکشی ڈیکلیئر کر دیتے ہیں کہ یہ گھریلو مسائل کی وجہ سے پریشان تھا، نشہ کرتا تھا، افیئر تھا اسکا ذہنی مریض تھا سس طرح ایک قتل خودکشی بن جاتا ہے مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ایک گمنام سپاہی پنجاب پولیس
محترم قارئین کرام میرے دیس میں ڈھول سپاہی اور رول سپاہی کے فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ایک گمنام بول سپاہی بولا ہے مجھے سرائیکی زبان کی ایک کہاوت یاد آ رہی ہے "نہ بھمدی دا کجھ نی بھمدا بھمدی دا سب کجھ بھاوے" سپاہی تو سپاہی ہی ہوتا ہے چاہے جس رنگ کی وردی میں بھی ہو مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہے. وہی دیس، وہی مٹی، وہی معاشرہ دونوں کی تنخواہ، مراعات،سہولیات،  ڈیوٹی، ٹائمنگ وغیرہ میں بڑا فرق ہے خیر چھوڑیں یہ فرق یا کسی اور طرح کا موازنہ ہمارا موضوع نہیں ہے پنجاب پولیس ہو یا سندھ پولیس یا کسی اور صوبے کی پولیس حکمران پولیس پر رحم کریں پولیس کے اعلی آفیسران اوپر سے نیچے تک اصلاحات کروائیں اور عمل درآمد کو یقینی بنائیں

یہ بھی پڑھیں : گردوں و یرقان کی بیماری اور خطہ سرائیکستان؟

پولیس کے سپاہی کو بھی رول سپاہی سے ڈھول سپاہی بنایا جا سکتا ہے ابتدائی طور پر صرف دو کام کردیں پھر دیکھیں پولیس کے رویوں اور کردار میں تبدیلیوں کی جھلک سب سے پہلا کام یہ کریں کہ پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کر دیا جائے یہ وہ بنیادی مسئلہ اور بڑی بیماری ہے جو دیگر مسائل اور خرابیوں کی موجب و سبب ہے نیت ٹھیک کرکے اس کا علاج کریں پھر رزلٹ دیکھیں پولیس کے امیج سے کارکردگی تک، لااینڈ آرڈر،امن و امان سے قانون کی بالادستی تک دوسرا اہم کام موٹر وے پولیس کی طرح پنجاب پولیس ملازمین کے ڈیوٹی ٹائمنگ کا تعین کر دیا جائے اور مناسب چھٹیوں کا بندوبست بھی رول سپاہی بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں انسان ہیں جن نہیں ہیں جس مٹی سے ڈھول سپاہی بنے ہیں یہ بھی اسی مٹی کے بنے ہوئے ہیں ماورائے ڈیوٹی، فرائض، ماورائے قانون ان سے کام لینا جب تک بند نہیں کیا جاتا عوام کو تحفظ، ریلیف، میرٹ، انصاف کے جھوٹے نعرے اور خالی خُولی دلاسے تو دیئے جا سکتے ہیں اور کچھ نہیں گمنام سپاہی کو بھی نام و مقام دو، عزت و وقار دو

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent