Ticker

6/recent/ticker-posts

Some people start itching from the last minute

مخدوم ترین صُلح سے کچھ حضرات کو خارش شروع

تحریر جام ایم ڈی گانگا

خطہ سرائیکستان سے تعلق رکھنے والی دو نامور سیاسی شخصیات کے درمیان صلح سے کچھ حضرات کو اندرونی و بیرونی خارش شروع ہو چکی ہے مخدوم احمد محمود اور جہانگیر خان ترین کی صُلح کی خبر نہ صرف جنگل میں آگ کی طرح پھیلی بلکہ جنگل میں لگنے والی آگ کی طرح بہت سے لوگوں کو جلانے کا باعث بھی بنی ہے مخدوم احمد محمود سابق گورنر پنجاب سابق وفاقی و صوبائی وزیر اور ضلع ناظم رحیم یارخان رہ چکے ہیں اس وقت وہ پیپلز پارٹی سرائیکی وسیب کے صدر ہیں دو بیٹے مخدوم مصطفی محمود اور مرتضی محمود ایم این اے ہیں جن میں سے ایک مرتضی محمود وفاقی وزیر بھی ہے ایک بھتیجا مخدوم عثمان محمود ایم پی اے ہے پیپلز پارٹی کے پاس صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ سیٹیں ضلع رحیم یارخان میں ہی ہیں جہانگیر ترین سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سابق مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں موصوف کو پی ٹی آئی کی اے ٹی ایم مشین اور تحریک انصاف کا شیر بھی کہا جاتا رہا ہے ایک ملتان کے قریشی اور ایک رحیم یارخان کے قریشی کی اندرونی سازشوں اور کچھ ُُ ُ ُاُن ٗ ٗ کی پسند نا پسند نے اس بااصول سیاستدان کو نیمے نیمے دھکے لگا لگا کر کارنر کر دیا عدالتی نااہلی کے فیصلے سے ترین کی کمر ٹوٹ گئی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری. ناراض ارکان، منحرف یا باغی اراکین کی صورت میں اس نے اپنے تمام مخالفین اور دوست نما مخالفین کو یہ باور کرایا کہ نااہلیت کے باوجود میں اور میری سیاست ابھی موجود ہیں خیر یہ ایک علحیدہ اور لمبی داستان ہے ہم آج کی موضوع کے پیش نظر آگے بڑھتے ہیں

مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین دو دوست،دو رشتے دار، دو کاروباری پارٹنر اور اور دو کامیاب سیاسی ساتھی رہے ہیں دس بارہ سال قبل دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور پھر بڑھتے ہی چلے گئے. اختلافات میں یہاں تک شدت آگئی تھی کہ جمال دین والی ائر پورٹ اور شوگر ملز میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگی تھی.اختلافات کی وجہ کاروباری تھی، سیاسی تھی یا کچھ اور؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت اس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ہے خیر بعد ازاں کچھ باہمی خیر خواہوں کی مداخلت سے دونوں کے درمیان معاملات ایک معاہدے کے تحت کنٹرول کر لیے گئے سرائیکی کی مثال  ہے کہ یاری بحال پر بسترا انجو انج مطلب یہ کہ اللہ کے فضل سے رشتے داری قائم رہی، کاروباری معاملات بحال ہوگئے لیکن دونوں کی سیاسی راہیں جدا جدا رہیں دس سال کے طویل عرصہ کے بعد 17 ستمبر کو دونوں شخصیات کے درمیان باقاعدہ صُلح کی خبر منظر عام پر آئی گوکہ صلح کے حوالے سے معاملات و بات چیت گذشتہ چھ ماہ سے چل رہی تھی مخدوم احمد محمود اور جہانگیرترین کا مشترکہ سیاسی دور ضلع رحیم یارخان کی ترقی کا ایک بنیادی و مثالی دور شمار کیا جاتا ہے وہ چٹا گورا جو آج کل اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتا ہے اسے آگے بڑھنے کا موقع بھی انہی کی وجہ سے ملا ہے پھر سب کو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ آگے اس نے بھی کمال مہارت سے نہ صرف اپنے آپ کو منوایا بلکہ ساتھ ساتھ اتنا مال بھی کمایا کہ ضلع کی پوری سیاسی تاریخ  میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے

یہ بھی پڑھیں : خودکشی کرنے والے شعر

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطہ سرائیکستان کی دوبڑی اور اہم ترین سیاسی شخصیات مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کی باہمی صُلح سے سرائیکی وسیب اور یہاں کے عوام کو کیا فائدہ ملے گا دونوں اپنی مستقبل کی سیاست کس پلیٹ فارم سے کریں گے مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ جہانگیر خان ترین تحریک انصاف ناراض یا باغی گروپ کے سرپرست کے طور پر میدان سیاست میں موجود ہیں اگر ان دونوں نے باہم مل کر ہی آئندہ سیاست کرنی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کون اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جائے گا کیا مخدوم احمد محمود پی ٹی آئی جوائن کرنے جا رہے ہیں؟ لیکن یہاں یہ مسئلہ بھی سب کو سامنے رکھنا چاہئیے کہ قائد تحریک عمران خان کے ساتھ تو جہانگیر ترین کے اپنے اختلافات چل رہے ہیں قومی سطح پر ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ میں دونوں آمنے سامنے کھڑے نظر آئے ہیں کیا اب وہاں بھی جمی ہوئی برف پگھل کر پانی بن چکی ہے کیا اختلافات کی آگ پر پانی ڈال کر اسے بجھا دیا گیا ہے یا نہیں دوسری صورت یہ ہے کہ کیا جہانگیر ترین آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے جا رہے ہیں گذشتہ کچھ عرصہ سے جہانگیر ترین کے نئی سیاسی پارٹی بنانے کی باتیں بھی خاصی گردش کر رہی ہیں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جہانگیر ترین کا سرائیکی وسیب، سندھ، خیبر پخواتنخواہ، بلوچستان کے سیلاب زدگان کے لیے اپنے طور پر علحیدہ سے دس کروڑ روپے کی خطیر رقم پر مشتمل عوامی ریلیف پیکیج کی فراہمی ان کے مستقبل کے منشور کا حصہ دکھائی دے رہی ہے صلح کی خبر کے بعد سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری حاجی نذیر احمد کٹپال نے اپنی ایک پوسٹ کے ذریعے کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے دونوں لیڈر سرائیکستان دھرتی کے عظیم بیٹے ہیں. انھیں صوبہ سرائیکستان کیلئے آگے بڑھنا چاہیے کامیابی ان کے قدم چومے گی وقت کا تقاضہ ہے کہ دھرتی ماں سے محبت کا اظہار کریں اپنی پارٹی بنا کر آگے آئیں یا کسی رجسٹرڈ سرائیکی پارٹی کا حصہ بنیں وزیراعلی سرائیکستان اور وزیراعظم پاکستان کا عہدہ ان کا مقدر بنے گا سرائیکستان کی دھرتی کا ملکی سیاست میں نہایت اہم کردار ہو گا کسی کے پیچھے نہ لگیں ملکی حالات کا تقاضہ ہے کہ اس طرف قدم بڑھائیں بعد میں شاید ایسا موقع نہ ملے بلاشبہ مسٹر کٹپال نے ان کی توجہ ایک اہم ترین نقطے کی جانب مبذول کرائی ہے سرائیکی وسیب میں عمران خان کے جادو کا سب سے بڑا اور کامیاب توڑ یہی ہے جو اسے اپنائے گا وہ کامیاب رہے گا مگر اپنا صوبہ اپنا اختیار والے صوبہ محاذ کے سیاسی سوداگروں اور ٹھگوں کی طرح عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیئے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تابوت دیکھنے کی تعبیر

پییلز پارٹی اور تحریک انصاف جو ابھی تک سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت کا جائزحق بھی نہیں دینا چاہتیں کیا وہ عوام کو پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح کا صوبہ دیں گی وسیب کے سیاست دانوں کو اگر وہ اپنے وسیب اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا یقینا مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کی صُلح کے ضلع رحیم یارخان کی سیاست پر سب سے زیادہ اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے بہت سارے حضرات کو تو ابھی خارش شروع ہو چکی ہے پی ٹی آئی کے باغی رکن قومی اسمبلی مخدوم  مبین عالم کی مخدوم احمد محمود سے ملاقات کے بعد جہانگیر ترین سے صلح کی خبر گویا ان کی پر چابُک کی طرح لگا ہے جس سے چِٹے کے سات کبرے کو بھی اندرونی و بیرونی خارش پیدا ہوگئی ہے سننے میں آرہا ہے کہ اب وہ خان پور پر چڑھائی کے خواب کو دفن کرکے اپنے حلقے کے تحفظ کی فکر کا شکار ہو چکے ہیں یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ بیوہ اور یتیموں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے والے گروہ کا سرپرست اعلی بھی مستقبل میں جہانگیر ترین کا ہم رکاب اور ہم قدم ہوگا اگر ایسا ہے تو پھر اللہ تعالی ضلع بھر کے عوام اور کسانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ظالم کا ساتھ دینے یا ظالم کو اپنا ساتھی بنانے والوں سے نہتی و مظلوم عوام کو بچائے آمین

محترم قارئین کرام، مقامی تجزیہ نگاروں اور سیاسی ٹھرک رکھنے والے لوگوں کے مطابق جہانگیر ترین اور مخدوم احمدمحمود مل کر کم ازکم ضلع رحیم یارخان کو تو مکمل کلین سوئپ کر سکتے ہیں مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کی صلح ضلع رحیم یارخان، سرائیکی وسیب، صوبائی و ملکی میں کیا نیا رنگ دکھاتی اس کا پتہ آنے والے دنوں میں ہی لگ جائے گا بہرحال سرائیکی وسیب میں صوبہ محاذ کا متبادل کوئی نہ کوئی سامنے تو ضرور آئے گا کیونکہ سرائیکی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لیے یہ عمل وقت کی ضرورت بن چکا ہے سرائیکی جماعتوں کا ون پوائنٹ ایجنڈا اور ایک ہی نعرہ ہے نہ کمتر نہ برتر پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح کا صوبہ سرائیکستان

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent