Ticker

6/recent/ticker-posts

Exploitative behavior of farmers and Punjab government

کسان اور پنجاب حکومت کے استحصالی رویے

قارئین کرام، شوگر مافیا اور مافیاز کے طفیلی محکمہ زراعت کی اندرونی ملی بھگت کی وجہ سے ایک بار پھر  شوگر کرشنگ سیزن 2022-23 کے لیے گنے کے نرخ کے تعین کے لیے تخت لاہور میں  ہونے والا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے سننے میں آیا ہے کہ اجلاس میں محکمہ زراعت پنجاب کی طرف سے گنے کے نرخ کے تعین میں زمینی حقائق کو ہمیشہ کی طرح ٹیکنیکل انداز میں نظر انداز کرنے پر اجلاس میں خاصی گرما گرمی بھی ہوئی اندرونی اطلاعات کے مطابق سندھ شوگر کین بورڈ گنے کے فی من قیمت کی تجویز 350 روپے کی رپورٹ دینا چاہتا  ہے جبکہ اس کےمقابلے میں پنجاب شوگر کین بورڈ 242 روپے فی من کی تجویز پیش کی ہے جسے موقع پر موجود کاشت کار تنظیموں کے نمائندگان نے رد کر دیا ہے پنجاب شوگر کین بورڈ کی مذکورہ بالا میٹنگ میں کسان ممبرز، شوگر ملز مالکان نمائنگان اور متعلقہ سرکاری محکمہ جات کے آفیسران نے شرکت کی اجلاس کی صدارت کین کمشنر پنجاب سید حسین بہادر شاہ نے کی کسانوں نے اجلاس میں گنے کی قیمت مقرر کرنے بارے اپنی تجاویز پیش کیں کہ گنے کی کم سے کم قیمت 400 روپے مقرر کی جائے کسانوں کو مٹھاس کے مطابق پریمیم ریٹ یعنی اضافی مٹھاس و ریکوری کی اضافی قیمت بھی شوگر ملز ادا کرے شوگر ملز مالکان نے اجلاس میں اپنا سارا زور اس بات پر لگائے رکھا کہ حکومت شوگر ملز کو ذخیرہ شدہ وافر چینی کو  ایکسپورٹ کرنے کی فوری اجازت دے گنے کی قیمت کے تعین کے لیے بلایا جانے والا یہ اجلاس مذکورہ بالا بحث و تکرار میں بے نتیجہ ہی ختم ہو گیا اور اب آئندہ اجلاس 23 اکتوبر کو ہوگا انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس طریقے سے کسانوں کے گنے کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح شوگرملز کی چینی کی قیمت کا تعین بھی سال بھر کے لیے ہونا چاہئیے کسانوں سے سستا گنا لے کر عوام کو مہنگی چینی بیچنے والوں کو کنٹرول کرکے ہی عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے سے بچانا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے

تحریر جام ایم ڈی گانگا

قارئین کرام، پاکستان جیسے ایک زرعی ملک میں زراعت اور کسانوں کے ساتھ حکمرانوں کا اس قسم کا رویہ اور سلوک دنیا کے کسی ملک میں بھی نہیں ہے پاکستان میں زراعت ہی معیشت کی بنیاد ہے اپنی بنیاد کو کمزور کرکے ترقی و خوشحالی کے دعوے کرنے والے بیرونی ایجنڈے اور ڈائریکشن پر کام کرنے والے عالمی ساہوکاروں کے ملازم معیشت دان ملک و قوم کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہو سکتے ہمارے لیے کتنی شرم ناک بات کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم جیسی اہم ترین غذائی ضرورت کی چیز بھی درآمد کریں ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنی زراعت پر وہ توجہ نہیں دے رہے جو اس کا حق بنتا ہے کسانوں اور اُن کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی معاملہ ہمیشہ گڑ بڑ ہی چلا آرہا ہے کسانوں کے آئے روز کے احتجاج، دھرنے، جلوس اس حقیقت کاثبوت ہیں گذشتہ کئی سالوں سے ہم یہ بھی دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ صوبہ سندھ اور پیپلز پارٹی کی سوچ اور پالیسی پنجاب کی نسبت قدرے کسان دوست ہے صوبہ پنجاب اور مسلم لیگ نے ہمیشہ کسانوں کو رگڑا لگایا ہے گذشتہ سال پنجاب کے مقابلے سندھ نے کسانوں کو گندم اچھا ریٹ دیا اس سال بھی حکومت سندھ نے گندم کے لیے 4000 روپے من تجویز کیے ہیں جبکہ پنجاب حکومت نے گندم کے لیے 3000 ہزار روپے من تجویز کیے ہیں ایک ملک میں اتنا بڑا فرق آخر کیوں ہے سرائیکستان اور پنجاب کے کسانوں نے آخر کیا جرم کیا ہے کیا سندھ کے کسانوں کے پیداواری اخراجات کے مقابلے میں پنجاب کے کسانوں کے پیداواری اخراجات کم ہیں کیا سندھ سرکار کے مقابلے میں پنجاب سرکار کسانوں زیادہ سہولیات فراہم کیے ہوئے ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھرسرائیکستان اور پنجاب کے کسانوں کے ساتھ یہ استحصالی سلوک بند ہونا چاہئیے اب دیکھیں گنے کے حوالے سے سندھ حکومت کی اور پنجاب حکومت کی جو تجاویز سامنے آئی ہیں دونوں میں فی من کم از کم 108 روپے کا جو واضح فرق موجود ہے یہ کیوں ہے کیا وفاقی حکومت یا کوئی عدالت اس حوالے سے صوبوں سے جواب طلب کر سکتے ہیں ہر سال کسانوں کو لگنے والی یہ ڈکیتی اربوں روپے کی بنتی ہے شوگر انڈسٹری کے مرئی اور غیر مرئی ثمرات و فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے مالکان ایک شوگر ملز کے بعد اور شوگر ملز ہی لگاتے چلے جا رہے ہیں کسی اور کاروبار میں ان کا جی نہیں لگتا اب تو پاور پلانٹ اور الکحل پلانٹ بھی اکثر شوگر ملز مالکان نتھی کر چکے ہیں ہم ایک انار سو بیمار کی کہاوت کی طرح کہاوتوں کی فہرست میں  ایک شوگر ملز درجنوں ثمرات کی نئی کہاوت کا اضافہ کر سکتے ہیں

محترم قارئین کرام، پنجاب حکومت کا سرائیکی وسیب کے سیلاب زدگان کے ساتھ رویہ اور سلوک بھی تنگ نظری پر مبنی نظر آتا ہے جس قدر سرائیکی وسیب میں لوگوں کی املاک اور فصلات وغیرہ کا سیلاب اور طوفانی بارشوں سے نقصان ہوا ہے پنجاب حکومت نے اِدھر وہ توجہ نہیں دی جو ضرورت اور حق بنتا ہے یہ تو بھلا ہو مخیر حضرات کا جو عوام کا سہارے بنے ہیں ورنہ حالات اس سے بھی پانچ گنا مزید بدتر ہوتے مختلف علاقوں کے سیلاب زدگان کے ساتھ حکومتی رویہ اور سلوک کیسا رہا ہے اس حوالے مجھےضلع رحیم یارخان میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ممبر پنجاب اسمبلی حلقہ پی پی صادق آباد سردارممتاز چانگ کی گفتگو نے چونکا دیا ہے ممتاز چانگ کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے میرے انتخابی حلقے کے سیلاب زدگان تباہ حال لوگوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں دیا ہماری ارداس کے باوجود بھی لوگوں کی مدد نہیں کی گئی پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت سندھ کی نے میرے حلقے کے ہزاروں غریب لوگوں کے لیے راشن اور امداد بھجوائی ہے ابھی بہت سارے مستحق ضرورت مند باقی ہیں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم مرتضی محمود نے بھی اپنے تئیں سیلاب زدگان کی مدد کی کوشش کی ہے پنجاب حکومت نے ہمیں اس وجہ سے مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کا حلقہ ہے ایم پی اے ممتاز چانگ پنجاب اسمبلی میں عوام اور کسانوں کی آواز اٹھاتا رہتا ہے حکومت پر تنقید کرتا ہے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تحفہ دینے کی تعبیر

محترم قارئین کرام، ایم پی اے سردارممتاز چانگ کے بولنے کی سزا حلقے کے سیلاب زدہ عوام کو تو نہیں ملنی چاہئیے سارے لوگ ممتاز چانگ کے ووٹرز تو نہیں انسانیت اور انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے پھر کم از کم حکومت اور حکمرانوں کو تو یہ بات قطعا زیب نہیں دیتی کہ مستحق غریب لوگوں کو اس قدر نظر انداز کر دیا جائے جس کسی نے بھی یہ الفاظ کہے ہیں کاش ماچھکہ سندھ میں ہوتا یقینا یہ بہت بڑے سخت اور بھاری الفاظ ہیں سوچنے اور فکر کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کیوں نکلے کس کی وجہ سے نکلے یہی سوچ اور رویے تو ہیں جو ہمیں آپس میں جوڑنے اور قریب کرنے کا باعث بنتے ہیں جو خلیج پیدا کرکے توڑنے، دوریوں، نفاق اور علیحدگی کا باعث بنتے ہیں کسی کو یاد ہو کہ نہ ہو کبھی بنگالیوں کو بھی بھوکا کہا جاتا تھا یاد رکھیں سوچ کو قید نہیں کیا جا سکتا یہ سوچ سفر کرتی ہے اور کبھی کبھی بہت دور نکل جاتی ہے حکومت سرائیکی وسیب اور ایم پی اے ممتاز چانگ کے حلقے کے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے منصفانہ پالیسی اور مثبت سوچ کا عملی مظاہرہ کرے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں کسی ایسی سوچ کو پنپنے کا موقع نہ دیں جو تعصب اور نفرتوں کو جنم دے ضلع رحیم یارخان اور سرائیکی وسیب کے کسانوں میں بھی ماضی کی نسبت اب یہ مطالبہ خاصا بڑھ چکا ہے کہ ہمیں گندم اور گنے کا ریٹ صوبہ سندھ کے برابر دیاجائے وفاقی حکومت کو چاہئیے کہ وہ گندم ہو یا گنا یا دیگر فصلات اُن کے پیداواری اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب قیمتوں کا تعین ہر فصل کی کاشت سے کم از کم ایک مہینے پہلے کرنے کو یقینی بنائے تاکہ ہر کسان ذہنی طور پر اپنے وسائل اور دیگر معاملات کو دیکھ کر اس کے مطابق فصلات کاشت کر سکیں شوگر ملز کے کرشنگ سیزن کا وقت سر پر آن پہنچا ہے لیکن ابھی گنے کی قیمت کا تعین نہیں ہو سکا صوبہ سندھ کی کچھ شوگر ملز تو بوائلر جلا کر گویا کرشنک سیزن کو شروع کرنے کی تیاریوں کا آغاز کر چکی ہیں صوبہ پنجاب کی شوگر ملز ایک تو ہرسال جان بوجھ کر گنے کی کرشنک کا آغاز دیر سے کرتی ہیں دوسرا ٹوکہ پرمٹ مافیا بڑا ظلم و زیادتی یہ کرتا ہے کہ رحیم یار خان کی ضلعی انتظامیہ کے ذریعے گنے کو سندھ جانے سے روکتی ہیں کیونکہ سندھ کی شوگر ملز پنجاب کی شوگر ملز کے مقابلے میں زیادہ ریٹ پر گنا خرید کرتی ہیں کسانوں کو ملنا والا یہ فائدہ ٹوکہ پرمٹ مافیا کو کسی صورت بھی قبول نہیں ہوتا وہ پنجاب حکومت خاص طور پر ضلع رحیم یارخان کی انتظامیہ کی معاونت سے کسانوں کو لوٹنے کے لیے دھڑلے سے غیر قانونی رکاوٹیں ڈالتے ہیں حالانکہ قانونا گنے کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے یہ سب کسانوں کے خلاف پنجاب سرکار کے استحصالی حربے ہیں زراعت اور کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو شوگر مافیا کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرح جرات مندانہ انداز میں استقامت کے ساتھ سٹینڈ لینا پڑے گا پنجاب میں میاں محمد زمان وٹو جیسے زراعت دوست اور کسان دوست آفیسر کو بطور کین کمشنر پنجاب تعینات کرنا ہوگا یہ عہدہ اور یہ سیٹ کسی کمزور کردار شخص کے بس کا روگ نہیں شوگر مافیا ملک کا سب سے بڑا بااثر اور طاقتور مافیاہے

ویسے زرعی تحقیقاتی شعبے کے علاوہ محکمہ زراعت پنجاب کو سرے سے ختم کر دیا جائے تو یہ بات جہاں زراعت اور کسانوں کے حق میں بہتر ہوگی وہاں اس فیصلے سے حکومت کو بھی اربوں روپے کا فائدہ ہوگا.اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو محکمہ زراعت کا کام مختلف پرائیویٹ کمپنیاں کر رہی ہیں یہ محکمہ محض نمائشی محکمہ اور سفید ہاتھی بن چکا ہے دور حاضر میں اگر محکمہ زراعت کو مافیاز کا معاون کار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent