Ticker

6/recent/ticker-posts

Role of Khawaja Farid University in Agricultural Development

زرعی ترقی میں خواجہ فرید یونیورسٹی کا کردار

پاکستان مسلم ممالک میں پہلا اور دنیا کا تیسرا ملک تھا جس نے سوشلسٹ انقلاب کے بعد عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان نے اس کا اعلان چار جنوری سنہ 1950 میں کیا تھا۔ اگلے برس یعنی 21 مئی سنہ 1951 کو پاکستان کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور میجر جنرل آغا محمد رضا کو پاکستان نے بیجنگ میں اپنا سفیر تعینات کیا تھا۔

اس زمانے میں شاید کسی کے وہم و گمان بھی نہ ہو کہ پاک چین دوستی ایک ایسے مثالی تعلق میں تبدیل ہوجائے گی جسے دنیا بھر میں بطور مثال پیش کیا جاسکے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات میں گرمجوشی آتی گئی اور یہ دونوں ممالک ہر قسم کے حالات میں ساتھ رہنے کے عزم پر ڈٹے رہے۔

سرمایہ کاری، دفاع، صنعت و حرفت اور ذراعت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جب پاک چین دوستی کی بات ہوتی ہے تو اسے ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری کہا جاتا ہے۔

چین نے جب بیلٹ اینڈ روڈ کا عالمی منصوبہ شروع کیا تو پاکستان اس میں بھی اہم شراکت دار کے طور پر سامنے آیا۔ سی پیک سے نہ صرف نقل و حرکت میں آسانی ہوئی  بلکہ تمام شعبہ جات اور مواقع کھل کر سامنے آئے۔ دیگر شعبوں کی طرح زرعی شعبے میں بھی تعاون کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔

رواں سال جون میں چین کی یونان اکیڈمی برائے ذراعت اور پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے ذرعی تعاون میں اضافے کے ایک ایم او یو پر دستخط کر کے ذرعی تعاون میں مزید وسعت کا عزم ظاہر کیا۔ اس دوران چینی حکام نے واضح کیا کہ کئی سالوں کے تعلقات سے پاکستان اور چین گندم، آلو، گنا ، کیلا اور دیگر اجناس کی کاشت میں جدت اور پیداوار میں اضافے کی کوششوں کے نتائج انتہائی حوصلہ افزا رہے۔ 

Role of Khawaja Farid University in Agricultural Development

تحریر: علامہ عبدالستار عاصم

ایسی سرگرمیاں جہاں سرکاری اور قومی سطح پر جاری رہیں وہیں دونوں ممالک کے نجی شعبہ نے بھی اس سے مستفید ہونے کی کوششیں شرو ع کردیں اور مذکورہ اجناس کے علاوہ دیگر اشیا پر بھی کام شروع ہوگیا۔ ایسے ہی جذبے سے سرشار چین کی خوراک و زراعت کی صنعت سے وابستہ ایک وفد دو روز قبل خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہ کیا جہاں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے معزز مہمانوں کا استقبال کیا۔ وفد کے دورے کا مقصد رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی کے اشتراک سے اعلیٰ اقسام ی تین مرچوں کی کاشت کاری کے مواقعوں کا جائزہ لینا اور اس پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اس دوران وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے وفد کو خواجہ فرید یونیورسٹی کی تدریسی و تحقیقی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے جامعہ کی انڈسٹریل لنکجز ، قومی و بین الاقوامی اداروں سے ایم او یوز اور دیگر نمایاں کامیابیوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں جس پر وفد نے ان کی کاوشوں کو سراہا۔ بعد ازاں یونیورسٹی کے سول آڈیٹوریم میں 'پاکستانی صنعت میں زراعت کے کردار' کے عنوان سے ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں فیکلٹی ممبران ، ایڈمن افسران اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ سیمینار کا انعقاد جامعہ کے شعبہ زرعی انجینئرنگ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ سیمینار کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر چن لی ژان اور  کا کہنا تھا کہ سی پیک جیسے منصوبے نے چین کے عوام اور سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد و رفت میں اضافہ کیا جس سے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان کی زراعت میں ترقی کے بے حد مواقع ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں مرچوں کی کاشت اور آبیاری کے حوالے سے کام کررہے ہیں اور اس ضمن میں وہ لاہور، پاک پتن، ملتان اور جلال پور سمیت 6 مختلف مقامات پر کام کررہے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زرعی انجینئرنگ میں خدمات کو سراہتے ہوئے ایک ایم او یو کی خواہش کا بھی اظہار کیا جس کے ذریعے باہمی تعاون میں اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس علاقے میں مرچوں کی تین مختلف اقسام کی کاشت پر کام کر رہے ہیں۔ اس دوران رجسٹرار ڈاکٹر محمد صغیر، ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد مرتضی،شعبہ  ایگری کلچر انجینئرنگ کے سربراہ ڈاکٹر یاسر نیاز، ڈاکٹر عدنان باجوہ، انور فاروق ، ڈاکٹر فرحان چغتائی اور دیگر بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تخت دیکھنے کی تعبیر

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہرنہ صرف خواجہ فرید یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں بھرپور توانائیاں صرف کررہے ہیں بلکہ وہ معاشرتی ضروریات  کی تکمیل، انڈسٹری لنکجز اور قومی و بین الاقوامی اداروں سے تعاون کے معاہدوں اور ان پر عملدرآمد کی بھی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔

چین کی کئی نامور ذرعی کمپنیاں  اور ادارے پاکستان کو زرعی ٹیکنالوجی، ہائی بریڈ بیج، اعلیٰ قسم کی ادویات کی فراہمی میں معاونت کررہی ہیں۔ گوادار گرین کا منصوبہ ہو، فوڈ سکیورٹی کی صورتحال ہو یا پھر ڈیری سے متعلق ترقیاتی اقدامات دونوں ممالک کا باہمی تعاون قابل رشک ہے۔

پاکستان کا کسان ہو یا زرعی کمپنیاں ہر ایک کو ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ ذراعت میں جدت آئے گی تو پیداوار میں اضافہ ہوگا اور اگر پیداوار میں اضافہ ہو گا تو ملک سے غربت اور افلاس کا خاتمہ ہوگا۔ وسائل بڑھیں اور خوشحالی آئے گی۔

یہ بھی پڑھیں : گاؤں "سالار واہن تھہیموں والا" تک کا سفر

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent