Ticker

6/recent/ticker-posts

Martyrdom of female journalist Sadaf Naeem

خاتون صحافی صدف نعیم کی شہادت

چینل فائیو سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی صدف نعیم جوکہ حقیقی آزادی لانگ مارچ کی کوریج پر مامور تھی جو دوران ایکسکلوزیو نیوز کے چکر میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا آزادی کینٹینر میں  انٹرویو کرنے کے بعد گر کر کینٹینر کے نیچے آکر خالقِ حقیقی سے جا ملی اللہ تعالی مرحومہ کی بخشش اور درجات بلند فرمائے اس کے بچوں کی غیب سے بہتر کفالت کے انتظامات فرما دے آمین اس حقیقت کا علم تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا کہ صدف نعیم کینٹینر سے کیسے گری اور نیچے آئی بہرحال اس کی موت کی وجوہات کچھ بھی ہوں وہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے طرفین کے سیاسی مخالفین یا متحارب گروپ اس اچانک حادثاتی واقعے پر بھی بڑی عجیب و غریب زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں جو گذشتہ کچھ سالوں کی منفی سیاسی تربیت اور پریکٹس کا نتیجہ ہے دراصل وطن عزیز میں اخلاقی زوال اپنی انتہائی حدوں کو چُھو رہا ہے میں یہاں پر وہ باتیں اور تبصرے کوڈ نہیں کرنا چاہتا یقینا پوری قوم اور دنیا وہ سب سوشل میڈیا پر پڑھ اور دیکھ رہی ہے لانگ مارچ کی ڈیوٹی کرنے والے پنجاب پولیس کے سپاہی کی ہارٹ اٹیک سے شہادت اور خاتون صحافی کی ٹریلر کے نیچے آکر شہید ہونے کے واقعات کو لیکر عمران خان پر طنز کرنے کا رویہ کوئی مثبت سوچ نہیں ہے ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی اور قومی سوچ اور کردار کو مثبت رکھنے کی ضرورت ہے عمران خان کا شہید ہونے والے خاتون جرنلسٹ صدف نعیم کے گھر جاکر ان کی فیملی، والدہ اور بچوں سے تعزیت کرنا اچھی بات ہے یہ اُن کی ہمددرانہ سوچ اور اندر کے احساس کی علامت ہے

محترم قارئین کرام، صدف نعیم ایک محنت کش فیلڈ ورکر صحافی تھی صحافت چار بچوں کی اس ماں کا صرف شوق نہیں تھا بلکہ اس کا ذریعہ روزگار بھی تھا بڑے شہروں میں غریب اور متوسط طبقے کی پڑھی لکھی خواتین کے لیے کتنے بڑے چیلنج ہوتے ہیں یہ بات ہم ہر کوئی نہیں جانتا ہم میں سے اکثریت صرف کسی کے ظاہری حالات اور پوزیشن کو دیکھ کر باتیں کرتے ہیں کون کیسے جی رہا ہے کون کیسے نبھا رہا ہے اس کا پتہ تو ہم اس وقت ہی کرتے ہیں یا پتہ چلتا ہے جبکہ کوئی حادثہ پیش آتا ہے ہمارے رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے دو صحافی دوست بتا رہے تھے کہ صدف نعیم بڑی محنتی، وقت کی پابند، ملنسار اور کوآپریٹو خاتون تھی رازش لیاقت پوری تو خبریں لاہور میں ان کے کولیگ رہے ہیں پنجابی قوم پرست صحافی میاں آصف اُن کے لاہور میں ہونے والے مختلف پروگرامز اور تقریبات فیلوز ہیں ہم میاں آصف کی جلد صحت یابی کے لیے بھی اللہ تعالی سے دعاگو ہیں جو ٹانگ کے فریکچر کی وجہ سے چلنے پھرنے سے عاجز ہیں بندہ صحافت کے جرنیل ضیاء شاہد جیسے استاد کا شاگرد ہو، اس کے زیر سایہ کام کرتا رہا ہو وہ محنتی، جستجو کرنے والا اور کھوجی نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس فانی جہان سے کوچ کر جانےوالے استاد اور شاگرد دونوں کی مغفرت فرمائے آمین

تحریر جام ایم ڈی گانگا

 محترم قارئین کرام، بدقسمتی سے ہم صحافت کے ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جس میں سامنے نظر آنے کی دوڑ، ریٹنگ کی دوڑ، کوریج کی دوڑ. سب سے پہلے کی دوڑ وغیرہ ان سب سے ایک صحافی کو ایک ساتھ لڑنا پڑتا ہے سفر کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے ایک ورکنگ جرنلسٹ کو کیا کیا اور کیسے کیسے کرنا پڑتا ہے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کس کس کی اور کتنی باتیں سننی پڑتی ہیں ان اندرونی حقائق سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں دوسروں کے مسائل اجاگر کرنے والے طبقے صحافیوں کے خود اپنے کتنے اور کیا کیا مسائل ہیں

صدف نعیم چینل فائیو 5 کے لئے کام کر رہی تھیں اس کی تنخواہ کتنی تھی کیا اسے تنخواہ وقت پر ملتی تھی یہ اہم سوال ہے؟ کیا یہ نوکری صبح نو سے شام پانچ تک کی تھی؟ کیا ادارہ انہیں ٹرانسپورٹ دے رہا تھا؟ کیا ادارے کی جانب سے انکی انشورنس کی گئی تھی؟

کیا ادارے نے انہیں مجبور کیا تھا کہ کچھ بھی ہو کنٹینر تک پہنچنا ہے؟ کچھ بھی ہو خان کا ایکسکلوزیو کرنا ہے؟ بہرحال یہ اُن کے باہمی معاملات ہیں جو ادارے اور ورکرز کے درمیان طے ہوتے ہیں اُن کی موت اور شہادت میں ادارے کا کوئی قصور نہیں ہے سبھی اداروں کے ورکرز تقریبا انہیں حالات میں کام کرتے ہیں ہاں البتہ اُن کے پیکیجز کا فرق ضرور ہوتا ہے صحافیوں کے لیے بنائے جانے والے ویج بورڈ اور قوانین پر کہاں کہاں اور کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے یہ تقریبا صحافی جانتے ہیں مگر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے ایک خاتون صحافی تندہی سے اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی

یہ بھی پڑھیں : غَلَطی ہائے مضامین

انا للہ وانا الیہ راجعون صدف نعیم کی اولاد کا کیا ہو گا؟ اس کی اولاد کا سوچنا کس کس کی کلی یا جزوی ذمہ داری بنتی ہے ادارہ اپنی شہید ہونے والی آن ڈیوٹی ورکر کی اولاد کی کفالت کے حوالے سے کیا کرتا ہے صحافتی تنظیموں کے پاس ایسے کیسز کے لیے کیا کچھ اور کیا طریقہ کار موجود ہے وہ صدف نعیم کی فیملی اور بچوں کے لیے کیا کرتے ہیں کونسی تنظیم کس شکل اور عمل کے ساتھ کب اور کیسے سامنے آتی ہے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چل سکے گا ویسے بہت سارے دل جلے صحافی لوگ صحافی تنظیموں کو کچھ زیادہ رگڑا بھی دے رہے ہیں رگڑا دیتے ہوئے وہ خود ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے اور دیکھتے کہ ان صحافی تنظیموں کے اپنے وسائل کیا ہیں وہ خود کسی تنظیم کے فلاحی مشن میں کس حد تک تعاون کرتے ہیں بہتر سے بہترین رزلٹ کے حصول کے لیے سب کو سب سے پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کہ میں اپنے کسی ساتھی اور ممبر دوست کے لیے کہاں تک اور کیا کچھ کرتا ہوں سب سے اہم ایک محنت کش ورکنگ جرنلسٹ کہاں تک مدد کر سکتا ہے اس حقیقت کو بھی ضرور مدنظر رکھنا پڑے گا بہرحال ایثار کے جذبے سے کافی کچھ کیا بھی جا سکتا ہے اس پر بھی مستقل بنیادوں پر سوچنا چاہئیے تاکہ کسی ناگہانی کی صورت میں ایک دوسرے کے کام آیا جاسکے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تشہد پڑھنے کی تعبیر

اس طرح کے بہت سارے واقعات میں حکومتوں اور سیاسی شخصیات کے لیے امداد کے اعلانات تو کر دیئے جاتے ہیں مگر اس کے مطابق متاثرین کو ملتا نہیں ہے یہاں آواز اٹھانا صحافی تنظیموں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے ہمیں یقین ہے حادثے کا شکار ہو کر شہید ہونے والی صدف نعیم کی فیملی کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 50 لاکھ روپے اور وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے 25 لاکھ روپے کی جس امداد کا اعلان کیا ہے وہ جلد از جلد انہیں فراہم کر دی جائے گی بچوں کی کفالت خاص طور پر تعلیم و تربیت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ وہ رقم بچوں کے اکاونٹ میں جمع کروائی جائ. اگر ان کا اپنا ذاتی گھر نہیں ہے تو انہیں اس اکٹھی ہونے والی رقم سے گھر خرید کر دیا جائے میں سمجھتا ہوں کہ یہ امداد کا بہترین طریقہ ہوگا جو ان کے سر چھپانے اور مستقل کفالت کا باعث بن سکتا ہے

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent