Ticker

6/recent/ticker-posts

Sheikh Zayed Hospital's oncology department suffers from problems

مسائل کا شکار شیخ زاید ہسپتال کا شعبہ آنکالوجی

تین صوبوں کے سنگم پر واقع ضلع رحیم یارخان کا شیخ زاید ہسپتال خطے کے عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے یہ ہسپتال ضلع کی پچاس لاکھ آبادی کے علاوہ ملحقہ ضلع راجن پور، صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے قریبی اضلاع کے عوام کو بھی علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کر رہا ہے ویسے تو ہپستال اور اس کے مختلف شعبہ جات کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے جنھیں حل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے اس وقت ہمارا موضوع مسائل میں گھرا ہوا شیخ زاید ہسپتال کا شعبہ کلینیکل آنکالوجی ہے یہ شعبہ 2005ء میں قائم ہوا افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اسے اپ گریڈ نہیں کیا گیا شعبہ میں صرف ایک کنسلٹنٹ ڈاکٹر ہے مڈکیپ آفیسرز یعنی ہیلپر ڈاکٹرز چار ہیں نرسنگ سٹاف صرف تین ہیں آفس سٹاف میں دو آدمی ہیں شعبے کے ٹوٹل بیڈز کی تعداد 12 عدد ہے یہ شعبہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے دور کی ایک ایسی خستہ حال بلڈنگ میں قائم کیا گیا ہے جو غالبا پہلے کسی ہیلتھ آفیسر کے دفتر کے طور استعمال ہوا کرتی تھی درجنوں مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے تیمار داروں کے لیے صرف ایک واش روم چالو حالت میں ایک پر تالا پڑا ہوا اور ایک کو کچرا خانہ بنایا گیا ہے خالی واش بیسن تو لگے ہوئے ہیں مگر ان میں ٹونٹیاں بھی نہیں وہاں صفائی کا اتنا ناقص انتظام ہے کہ الٹیاں کرنے کو جی کرتا ہے واش روم کی  ضرورت کے وقت مریضوں اور تیمارداروں کا طویل انتظار کتنا تلخ معاملہ ہے کسی کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہے یہاں چیک اپ کے لیے آوٹ ڈور میں آنے والوں کے لیے برآمدے میں صرف گنتی کی چند کرسیاں پڑی ہیں بیٹھنے کا کوئی معقول و مناسب انتظام نہیں ہے شعبہ آنکالوجی میں اس وقت تک صرف کیمو/ہیمو تھراپی کی سہولت موجود ہے ریڈیو تھراپی یعنی لیزر شعاعوں کے ذریعے علاج کینسر کے علاج کا اہم ترین حصہ ہے مگر یہاں کا شعبہ آنکالوجی اس سہولت یکسر محروم ہے گویا رحیم یار خان کے شیخ زاید ہسپتال میں کینسر کا مکمل نہیں صرف جزوی علاج ہوتا ہے یہی وجہ سے انتہائی غریب اور لوئر مڈل کلاس کے مجبور مریضوں کے علاوہ کوئی ادھر کا رخ ہی نہیں کرتا اکثر مریض یہاں کے مذکورہ بالا مسائل اور گھمبیر حالات کی وجہ سے ملتان، لاہور یا کراچی کا رخ کرتے ہیں اس کے باوجود بھی یہاں مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بیڈز کم پڑے جاتے ہیں مریضوں اور تیمارداروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں. ان خیال کرنا بھی ضروری ہے شعبہ کے انچارج کنسلٹنٹ ڈاکٹر ساجد غفور اپنے کام کے ماہر ہیں وہ ریڈیوتھراپی کرنا بھی اچھی طرح جانتے ہیں مگر کیا کریں ضروری سازو سامان اور مشینیں ہی دستیاب نہیں ہیں میں نے اپنے معالجاتی وزٹ کے دوران ڈاکٹر ساجد غفور اور اُن کے نرسنگ سٹاف کو بااخلاق اور مثبت سوچ کا حامل پایاہے

تحریر جام ایم ڈی گانگا

حکومت نے کینسر کے علاج کے لیے یہاں شعبہ تو قائم کر دیا مگر ابھی تک مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کی جا سکیں اس شعبہ کو اگر لولھا لنگڑا شعبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ستم ظریفی کہوں یا کوئی اور نام دوں یہاں روزگار اور ملازمت کے حوالے سے خود ڈاکٹرز بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں انہیں ریگولر نہیں کیا جارہا میرے نزدیک توایڈہاک ازم خود ایک بڑا مرض ہے مریضوں کا علاج کر نے والے ڈاکٹرز کے اس مسئلے کا حل بھی ضروری ہے وقت نے ثابت کیا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد خاصی بڑھ رہی ہے جس کی کئی وجوہات اور اسباب ہیں جن پرکسی علحیدہ کالم میں بات کریں گے یرقان کے حوالے سے تو پاکستان بھر میں سرائیکی وسیب کا ضلع ڈیرہ غازی خان پہلے اور ضلع رحیم یار خان دوسرے نمبر پر آتا ہے  مجھے نہیں معلوم کہ کینسر کے مریضوں کے حوالے سے پاکستان میں ضلع رحیم یارخان کا کونسا نمبر ہے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ضلع رحیم یار خان شیخ زاید ہسپتال کا شعبہ آنکالوجی ہنگامی بنیادوں پر توجہ کو مستحق ہے یہاں مکمل سہولیات سے آراستہ ایک علحیدہ کینسر سنٹر کی ضرورت ہے بیڈز کی تعداد کو فوری طور پر ٹرپل یا کم ازکم ڈبل کیا جائے ایک کنسلٹنٹ ڈاکٹر قطعا ناکافی ہے ایک مزید کنسلٹنٹ ڈاکٹر ضروری ہے تاکہ ایک کی عدم موجودگی کی صورت میں مریض نیم اندھیرے کی کیفیت کا شکار نہ ہوں اسی حساب سے نرسنگ سٹاف کی تعداد بھی بڑھائی جائے

محترم قارئین کرام، میں سمجھتا ہوں کہ شعبہ آنکالوجی کے جو مسائل ہسپتال یا ضلعی انتظامیہ کے لیول کے ہیں مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر خان وزیر، ڈاکٹر محمد سلیم لغاری، ڈاکٹر آغا توحید انہیں فوری طور پر حل کروا دیں گے مجھے ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان شکیل احمد بھٹی سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ کسی دن اچانک بغیر اطلاع کے ہسپتال کے شعبہ آنکالوجی کا وزٹ کرکے مذکورہ بالا بیان کردہ مسائل و حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد حکومت پنجاب کی متعلقہ ذمہ دار اٹھارٹیز کو آگاہ فرمائیں گے جہاں تک ریڈیالوتھراپی کی سہولیات کی فراہمی کا تعلق ہم وزیر صحت حکومت، سیکرٹری صحت خاص طور پر وزیر اعلی پنجاب سے ملتمس ہے کہ آپ کے ایک نوٹس لینے اور ذرا سے توجہ سے شیخ زاید ہسپتال کے شعبہ آنکالوجی کی تقدیر بدل سکتی ہے یہاں کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مریض ملتان، لاہور یا کراچی کی مسافت اور بے پناہ اخراجات سے بچ سکتے ہیں

یہاں پر میں ایک اور اہم بات بھی گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں صحت کارڈ پر اگر دوسرے امراض کا مفت علاج جاری ہے تو پھر کینسر کے مریضوں کے لیے یہ سہولت گذشتہ سال سے کیونکر بند کر دی ہے اس سے کئی غریب مریض مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں کیونکہ کینسر کے مہنگے علاج کو افورڈ کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے اس پر بھی نظرثانی فرمائی اور سہولت بحال کی جائے میں ضلع رحیم یارخان کے سرمایہ داروں و تاجروں کے سب سے بڑے فورم رحیم یارخان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی موجوہ کابینہ اور فلاحی کاموں کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل سرپرست و قائدین حاجی محمد ابراہیم، میاں عامر شہباز، چودھری عبدالرؤف مختار، چودھری محمد شفیق و دیگر سے یہی امید رکھتا ہوں کہ وہ نیکی اور صدقہ جاریہ کے اس کام کے لیے ضرور آگے بڑھیں گے فلاحی فنڈ سے اور مل جل کر شعبہ آنکالوجی میں ریڈیالو تھراپی کے لیے ضروری مشنینں پرچیز کرکے شیخ زاید ہسپتال کو ڈونیٹ کریں گے.پھر یقینا رحیم یار خان میں بھی کینسر کے مریضوں کا ادھورا نہیں پورا علاج ہوا کرے گا

یہ بھی پڑھیں : یو ایس اے میں ڈرائیور کا لائسنس کیسے حاصل کریں؟

راقم الحروف اپنی طرف سے انتظامیہ اور حکومت کو یہ آفر پیش کرتا ہے کہ اگر ہسپتال کے علاوہ کسی اور جگہ پر وہ علحیدہ کینسر سنٹر بنانے چاہے تو میری طرف سے گانگانگر موضع محمد پور گانگا میں ایک سے دو ایکڑ تک حسب ضرورت زمین میں مفت عطیہ کرنے کو تیار ہوں بسم اللہ، قبول فرمائیے اور تعمیراتی کام کا آغاز کیجئے

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent