Ticker

6/recent/ticker-posts

صحافت کاپروانہ شبیر احمد

Journalist Shabir Ahmed

تحریر ثناءصفدر سانولی 

مختلف کالموں اور تحاریر کو پڑھ کر ہم لکھنے والے کے ذہن و فہم کو بہ خوبی جانچ سکتے ہیں اور جب کسی لکھاری کی سوچ، فکر، اندازبیان، الفاظ اور ترتیب ہمارے دل کو بھلی لگتی ہے وہ ہمارا پسندیدہ لکھاری بن جاتا ہے۔ 
آج میں بھی اپنے پسندیدہ لکھاری کے بارے میں لکھنے جا رہی ہوں ان کا نام شبیر احمد ڈار ہے جو کہ کالم نگار ہیں ۔ جن کا لفظ لفط میرے مطابق سچ پر مبنی اور حق کی گواہی دے رہا ہوتا ہے ۔ان کے والد محترم کانام محمد رفیق ڈار ہے جو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ کے رہنے والے تھے پھر 1990ء میں بھارتی مظالم سے تنگ آکر مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر میں سکونت پزیر ہوئے اور آج منگ بجری مہاجر کیمپ میں ایک خوش حال زندگی گزار رہے۔
کالم نگار شبیر احمد  29اپریل 1997ءکو چمیاٹی (ضلع باغ و تحصیل دھیرکوٹ ) میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم ریڈ فاؤنڈیشن اسکول  منگ بجری سے حاصل کی اور  میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول منگ بجری سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔  گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول ہاڑی گہل سے اعلیٰ درجے میں انٹر میڈیٹ کیا اور بی اے کی ڈگری گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج باغ سے حاصل کی۔نہایت ہی محنتی طالبعلم ثابت ہوئے ان کا اخلاق اور کردار ہر جگہ پر عوام کے لیے عملی نمونہ ثابت ہوا۔ انہوں نے تعلیم کو ہی اپنا شعار بنایا اسی لیے علم حاصل کرنا اور اسے بانٹنا آپ کا پسندیدہ فعل ہے۔ گریجویشن کے بعد ان کہ اردو سےمحبت پروان چڑھی اور جامعہ آزاد جموں و  کشمیر مظفر آباد میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور اس وقت 2020ء میں ایم اے اردو کے آخری مرحلے میں زیر تعلیم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : کوئی بھی اسسٹنٹ کمشنرخان پورکےمسائل حل نہ کرسکا؟وجوہات کیاہیں آپ بھی سوچئے

اردو سے ان کی محبت، شعور کو مزید ابھارنے کے لیے ایم اے اردو کے استاد میر یوسف میر صاحب نے انہیں کالم لکھنے کا مشورہ دیا اور اس طرح آپ نے پہلا کالم لکھا جس کا موضوع "کشمیر کی ثقافت "تھا  جو کہ ریاست آزاد جموں و کشمیر   کے مختلف اخبارات میں کامیابی سے شائع ہوا۔پہلے کالم کی کامیابی اور قارئین کی طرف سے بھر پور حوصلہ افزائی نے ان کے شوق کو مزید ابھارا اور پھر ایک سے ایک بہترین مختلف موضوعات پر کالم لکھے۔
جہاں سماج و ثقافت کی عکاسی میں پیش پیش رہے  وہاں شخصی کالم لکھنے پر بھی عبور حاصل کیا اور پہلا شخصی کالم باغ کے نامور شاعر اور ادبی انجمن طلوع ادب کے معتمد جناب سید شہباز گردیزی صاحب پر لکھا اور اس کے بعد دوسرے شخصی کالم کے لیے معروف ادبی شخصیت فرہاد احمد فگار کو قلم کاحصہ بنایا جو کہ زبان و ادب کے اچھے خادم ہیں اور بطور پروفیسر بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
شبیر احمد صاحب پڑھنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی کمال دلچسپی رکھتے ہیں ان کی محنت ان کی اردو ادب سے محبت کو ظاہر کرتی ہے ۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ روزنامہ قومی سفیر میں رپورٹر کے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں اور روزنامہ شاداب مظفر آباد اور روزنامہ صاف صاف رحیم یار خان سے نامہ نگار کے طور پر  بھی منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں ویب چینلز کے لیے بھی کام کرتے ہیں جو کہ ان کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہماری قوم کے لیے ایسے نوجوان قیمتی ہیں جو قومی زبان کے لیے اس قدر مخلص ثابت ہو جو بغیر کسی اجرت کے ادب کے فروغ کے لیے دن رات کوشاں رہیں
   ویمن یونی ورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر میں شعبہ اردو کا قیام ابھی تک  نہیں ہوا جو کہ ان کو ناگوار گزرا اور تحریک فروغ اردو کے نام سے جامعہ خواتین باغ پر مشتمل ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد فروغ اردو ہے
 ایک عظیم ادبی شخصیت اور معروف کالم نگار اور شاعر  فرہاد احمد فگار انکے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں 
"شبیر محنتی اور جلد باز انسان ہے۔وہ ہر کام وقت سے پہلے کرنا چاہتا ہے۔میں سمجھتا ہوں یہ چیز اس کے ادبی سفر کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اگر وہ اپنے اس سفر کو محنت کے ساتھ ساتھ حوصلے سے طے کرے اور ہر کام کو وقتِ مقررہ پر سر انجام دے تو میں سمجھتا ہوں وہ بہت ترقی کر سکتا ہے۔ شبیر کے پاس صلاحیت کا فقدان نہیں ہاں اگر کمی ہے تو تسلسل کی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بہت جلد بہت شہرت سمیٹ لے ۔ اس لیے اس کی تحریر کئی طرح کی خامیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اپنے قلم کے ساتھ بہتر منصف کی طرح پیش آئے اور تحریر میں ربط اور تحقیق میں محنتِ شاقہ سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مستقبل میں ایک بہترین کالم نگار کے طور پر سامنے آئے۔ جماعت کے اندر میں نے جتنا عرصہ اس کو پڑھایا اس دوران میں بھی اس کی غیر سنجیدگی اس کی قابلیت پر حاوی دیکھی۔ شبیر کے قلم میں روانی ہے ضرورت ہے کہ وہ اس کام میں تسلسل نہ توڑے اور کسی بھی چیز کو لکھنے سے قبل مختلف زاویوں سے پرکھے تو اس کی تاثیر میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے کالم دیکھ کر سرشاری ہوتی ہے۔ یقینِ واثق ہے کہ وہ اس کام کو جاری رکھے گا اور سیکھنے اور بہتر کرنے کی کوشش کرے گاوالسلام: فرہاد احمد فگار، مظفرآباد
فرہاد احمد فگار صاحب کی رائے سے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کچھ اغلاط کی درستگی کے بعد شبیر احمد صاحب نہایت قابل اور بہترین ادیب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ادب سے انکی بے لوث محبت انہیں اچھی جانب لے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس بارے میں ایک اور  نہایت قابل شخصیت کاشف شہزاد صاحب جو کہ کار کی ایکسپورٹ امپورٹ کمپنی کے لیے جاپان میں کام کر رہے ہیں کہتے ہیں۔
"شبیر احمد بہت اچھی اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں ۔ نہایت نرم مزاج اور زندہ دلی کی صفت رکھتے ہیں انکو اردو زبان سے بےحد لگاؤ ہے اور اپنی زندگی میں ہر وقت ادب کے لیے کوشاں رہتے ہیں.  ہمارے ملک کو شبیر جیسے نوجوانوں کی سخت ضرورت ہےجو ہماری زبان ثقافت اور تمدن کے لیے کوشاں رہیں ۔ وہ ایک اچھے لکھاری ہیں انکے کالم معلوماتی اور حقیقت سے بھر پور ہوتے  ہیں شبیر ایک اچھا ٹیلنٹ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی محبت، محنت اور ذہانت سے صحافت میں ایک خاص مقام ضرور حاصل کر پائیں گے
اسی طرح جتنے افراد بھی ان کو پڑھتے ہیں انکی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ اردو کو اپنے الفاظ کی چاشنی سے مزید میٹھا کر دینے کا ہنر ان میں موجود ہے الفاظ کے کھیل کے بازیگر اور صحافت کے پیشے کے پروانے ہیں جو اپنی شمع پر ہر حالات مر مٹنے کو تیار ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے اور اپنے علم و ہنر سے نوجوان نسل کو فیض یاب کرتے رہیں انکو دیکھ کر مجھے علامہ محمد اقبال کے شعرکا ایک مصرع یاد آجاتا ہے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی 

 آخر میں دعا کروں گی کہ شبیر جیسے نوجوان سلامت رہیں تاکہ ہماری نوجوان نسل میں بھی آگے بڑھنے اور لکھنے کا جزبہ پیدا ہواللہ
صحافت کاپروانہ شبیر احمد
تعالیٰ انہیں شاد رکھے اور کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے آمین

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent