Ticker

6/recent/ticker-posts

میری پسندیدہ شخصیت

My favorite person

تحریر راحیلہ سرفراز

کچھ تحاریر ایسی ہوتیں ہیں جو ہمارے دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ جاتیں ہیں۔ “درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ ایک ایسی تحریر ہے جس کو پڑھ کر آپ داد دیئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ان کا انداز بیاں  دل کو چھو لیتا ہے۔ یہ تحریر میرے پسندیدہ کالم نگار کی ہے۔ان کا  نام “شبیر احمد ڈار “اور قلمی نام شبیر احمد ہے۔آپ29 اپریل 1997 کو چمیاٹی میں پیدا ہوے۔
آپ کے والد محترم کا نام محمد رفیق ڈار ہے۔آپ کے والد صاحب1990 میں مقبوضہ جموں کشمیر سے ہجرت کر کے آزادکشمیر میں آئے . آپ نے ابتدائی تعلیم ساتویں  تک ریڈ فاونڈیشن اسکول منگ بجری اور   پھر میٹرک کی تعلیم گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول منگ بجری سے سکینڈ ڈویژن میں پاس کی .اس کے بعد آپ نے ایف اے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول ہاڑی گہل  سے فسٹ ڈویژن اور بی اے گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج باغ سے سکینڈ ڈویژن میں پاس کی .اسی دوران أپ کا اردو سے لگاؤ بڑھا اور آپ نے  جامعہ آزادجموں وکشمیر مظفرآباد میں ایم اے اردو میں سیشن 2018- 2020 میں داخلہ لیا اور ابھی آخری سمسٹر میں زیر تعلیم ہیں

یہ بھی پڑھیں : خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی ٹڈی دل کے حملوں کا شکار

آپ کلاس میں کبھی زیادہ سنجیدہ نہیں ہوےتھےہنسی مذاق کرتے رہتے آپ کو ویلکم پارٹی اور دیگر پروگراموں میں پیروڈی کنگ کا ٹائٹل دیتے مگر پھر جب اسی جامعہ میں پہلے سمسٹر میں آپ کے پروفیسر میر یوسف میر صاحب نے کالم لکھنے کا کہا تو أپ  نے خود کو بدلنا شروع کیا اورآپ نے  بہت محنت اوردلجمی سے لکھنا شروع کیا۔ آپ نے پہلا  کالم “کشمیر کی ثقافت "پرلکھاجو آزادکشمیر کے مختلف اخبارات میں شائع ہوا اسی طرح آپ نے کالم نگاری کا جو سلسلہ  شروع کیا وہ آج تک قائم ہے۔ آپ نے مختلف مضامین پر کالم لکھے جو ملکی اور بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئے جن کا میں ذکر کرنا چاہوں گی۔
کشمیر کی ثقافت،درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو، کشمیری زبان، کشمیریوں پر ظلم آخر کب تک، تحریک آزادی کشمیر ہی مہاجرین جموں کشمیر کی منزل ، مہاجرین 1989-90 کی ہجرت کے مناظر ، مہاجرین 1989 -90 کے مسائل، مہاجرین جموں کشمیر ماضی تا حال ، آزادکشمیر کے بارے میں اہم معلومات ، آزادکشمیر میں اردو زبان ، تحریک فروغ اردو ، ذرہ سوچئیے ،  آرٹیکل 370 اور دفعہ 35A کا خاتمہ نامنظور، ظالم و دہشت گرد کون؟ ایک یادگار سفر، کورونا وائرس، موجودہ معاشرتی نظام ،منگ بجری کیمپ کے مسائل، فراڈیاکمپنیز، شعبہ اردو کے نام ایک پیغام، آزادکشمیر میں انٹرنیٹ سروس وغیرہ
  کالم نگاری کے آغاز کا سہرا میر یوسف میر جو شعبہ اردو جامعہ مظفرآبادمیں لیکچرار ہیں ان کے سر جاتا ہے .فرہاد احمد
فگار انہوں نے أپ کی اغلاط کی ہمیشہ نشاندہی کی اورآپ کو درست تلفظ سے آگاہ کیا .                                                      آپ نے شخصیت پر دو کالم لکھے ایک سید شہباز گردیزی کی شخصیت پر جو باغ کے نامور شاعر ہیں اور ادبی انجمن طلوع ادب کے معتمد ہیں .اور دوسری ادبی شخصیت فرہاد احمد فگار جو آزادکشمیر میں زبان و ادب کے حوالے سے کام کر رہے اور پروفیسر کے فرائض بھی سر انجام دے رہے .  سر فرہاد احمد کے خیالات آپ کے بارے میں۔
شبیر احمدڈار سے تعارف اس وقت ہوا جب وہ ایم اے اردو کے دوسرے سمسٹر میں تھا۔ میں ان کو کلاسیکی شاعری پڑھاتا تھا تب میں نے اسے ایک غیر سنجیدہ اور مزاح کا رسیا پایا۔ اس کی ذات میں سنجیدگی کہیں بھی نظر نہ آئی ۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ثابت کیا کہ وہ ایک سنجیدہ قلم کار بھی ہے۔ وہ ایک نو آموز قلم کار ہے۔ مجھے اس کے اندر ایک بے باک لکھنے والا نظر آ رہا ہے۔ تاہم وہ ایک جلد باز انسان ہے لکھنے کے لیے تحقیق کرنے میں کبھی کبھار غفلت کا مظاہرہ بھی کر جاتا ہے۔
شبیر کے اندر کی جستجو ایسی ہے جو اسے کسی کل چین سے نہیں رہنے دیتی اور وہ اپنے قلم کو بھی استعمال میں لا کر مطمئین رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد اس نے کئی ایک اچھے کالمز لکھ کر خود کو بہ طور کالم نگار منوالیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر وہ مقدار کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی ملحوظ رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ چوٹی کے لکھنے والوں میں شمار ہونے لگے گا۔ خوش آئیند ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تحریر پختہ اور بہتر ہوتی جا رہی ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک شبیر کو دو جہاں میں خوش باش رکھے۔ آمین
(فرہاد احمد فگار، لیکچرر اردو مظفرآباد آزاد کشمیر)
آپ کے لکھے گے کالم مختلف اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ کالم نگاری کے علاوہ آپ روزنامہ قومی سفیر کے ساتھ ایک سال سے رپورٹنگ کر رہے اور روزنامہ شاداب مظفرآباد اور روز نامہ صاف صاف رحیم یارخان  کے ساتھ بھی منسلک ہیں اس کے علاوہ مختلف ویب چینل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ کالم ہو یا رپورٹنگ کبھی کسی کام کی اجرت نہیں لیتے آپ کا شوق آپ کو اس طرف لے آیا ہے۔  آپ اپنا کام پوری زمہ داری ، دیانتداری اور لگن سے کرتے ہیں۔ آپ کو اپنے کام سے بہت لگاؤ ہے۔        جاپان میں موجود کمپنی میں اعلی  عہدے پر ملازمت کرنے والے  کاشف شہزاد بقول “شبیر احمد ڈار ایک اچھی اور سادہ طبعیت کے مالک ہیں۔ وہ بہت نرم مزاج اور زندہ دل انسان ہیں۔ ان کو اردو زبان سے بے حد لگاؤ ہے اور وہ اردو کے فروغ کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی یہ بات مجھے سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ہماری زبان، ثقافت اور تمدّن کے لئے کوشاں رہیں۔ وہ ایک اچھے لکھاری بھی ہیں۔ ان کے کالم بہت معلوماتی اور حقیقت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ شبیر ایک اچھا ٹیلینٹ ہے ہماری نوجوان نسل میں اور میں امید کرتا ہوں وہ اپنی محبت اور ذہانت سے صحافت میں اپنا ایک خاص مقام ضرور حاصل کر پائیں گےآپ کی پسندیدہ ادبی شخصیت سید شہباز گردیزی ہیں ۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں . آپ ایک صاف گو اور سچے انسان ہیں۔ سچ بات سے پیچھے نہیں ہٹتے حق بات کہنےاور برائی کو روکنے کے لیے ہر دم تیار۔کسی نے کیا خوب کہا ہے
ہم نہ کہتے تھے حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

فراڈیا کمپنیز پر کالم لکھا جس میں دبئ کے ایک صاحب کی رائے لکھی جس پر انہیں قانونی نوٹس بھی ملا مگر آپ نے کوئی پرواہ نہ کی اس بات پر ایک شعر آپ سے بہت میل کھاتا

                         تم کو حق  بات جو کہنے کی بہت عادت ہے تحتہ  دارپر جانے کا ارادہ  ہے کیا


اس بات پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کو اپنی پرواہ نہیں تو آپ نے کیا خوب کہا کہ 

بندوق سے نکلی گولی اور قلم سے نکلے الفاظ کبھی واپس نہیں آتے

آپ کے ان الفاظ نے دل پر گہرا اٽر کیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے آپ برائی کے ڈر سے اپنا راستہ نہیں بدلنے والے۔  آپ سادہ مزاج ،  ،نرم دل اور حلیم طبعیت کے مالک ہیں۔دوسروں کی مدد کے لیے ہر گھڑی تیار۔آپ کو مطالعہ کا بہت شوق ہے۔ معلوماتی کتب اور شاعری کی کتب سے شغف رکھتے ہیں۔ شاعری اچھی لگتی ہے  مگر آپ شعر یاد نہیں رکھ پاتے۔آپ کو ایک بہترین معلم / ایماندار پولیس آفیسر بننے کا شوق ہے۔  جہاں تک میں جان پائی ہوں آپ میں بہتریں معلم بننے کے سارے گر موجود ہیں۔شجرکاری سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں ۔ کھیلوں میں کرکٹ بہت پسند ہے أپ کو صحافت کے ساتھ پرانی وابستگی تھی جو رفتہ رفتہ گہری رفاقت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ أپ نے تہذیب حافی کا انٹرویو بھی لیا ہے اس کے علاوہ وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر کا حضرت سائیں سخی سہیلی سرکار کے سالنہ عرس مبارک میں انٹرویو لیتے  وقت کمیرہ مین کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔
جب میں نے آپ سے پوچھا کے آپ کی خواہش  جو آپ پانا چاہتے ہوں تو آپ نے کہا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش مقبوضہ کشمیر کو چومنا  ہے  جہاں اپنے عزیزو اقارب اور اپنے آباو اجداد کی آبائی زمینوں  کو دیکھ سکوں جس کو انہوں نے بھارتی ظلم سے تنگ آ کر چھوڑ دیا  .مہاجرین 1989 سے میرا  تعلق ہے 1997 میں میری پیدائش یہاں ہوئی مگر پھر بھی ہم وہاں نہیں جا سکتے کاش کے ویزہ کے ذریعے ہمیں وہاں جانے کی اجازت مل جائے  تاکہ ہم بھی جنت نظیر ارض کشمیر  کا نظارہ دنیا میں کر سکیں
آپ اردو زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہر دم اردو زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔اور فروغ اردو کے لیے تحریک فروغ اردو کا آغاز بھی کیا .آپ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے اردو زبان پھلے پھولے اور ترقی  کرے اردو زبان کے فروغ کو لے کر آپ کے بہت سے خواب ہیں۔ اس موقع پر نامور شاعر  شہباز گردیزی کا شعر یاد آ گیا
بس اک اسی بات پہ اٹکی ہے سانس میری
میں مر گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا
 شبیراحمد ڈار آزادکشمیر کا ابھرتا ہوا نوجوان قلم کار ہے جب کہ  موجودہ دور نوجوان نسل قلم کاری سے بھاگ رہی مجھے امید ہے بہت جلد یہ قلم کار صحافت میں اپنا لوہا منوائے گا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent