Ticker

6/recent/ticker-posts

رحیم یارخان میں ہلکی پھلکی سیاسی ہلچل

Light political turmoil in Rahim Yar Khan

تحریر جام ایم ڈی گانگا

کرونا کے خطرناک راج کے خاتمے کے بعد خطہ سرائیکستان کے ضلع رحیم یار خان میں ماہ ستمبر کے شروع ہوتے ہی یہاں پر ہلکی پھلکی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے ضلعی ہیڈ کوراٹر رحیم یار خان شہر میں اس جمود کو سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے پرانے بنیادی جیالے سردار محمد عظیم خان سولنگی ایڈووکیٹ کے بھتیجے نئے نویلے سٹی صدر راجہ سولنگی نے شہر کو پینا فلیکس سے سجا کر اور اپنے دیرے پر بھر پور تقریب کا اہتمام کرکے کیا. جس میں پیپلز پارٹی کی مقامی ضلعی قیادت سردار حبیب الرحمن گوپانگ، میاں عامر شہباز، سابق ایم پی اے چودھری جاوید اکبر ڈھلوں اور سابق سٹی صدر سردار محمد صفدر خان کانجو سمیت کثیر تعداد میں عمائدین اور پارٹی ورکرز نے شرکت کی.شہر کے خاموش سیاسی تالاب میں پھینکے گئے اس پتھر کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے  11ستمبر کو خواتین ورکرز کنونشن کے نام سے ہونے والے پروگرام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کل کی طرح شہر میں آج بھی مسلم لیگ ن مضبوط حیثیت کے ساتھ موجود ہے. اس تقریب کا حال احوال ہم بعد میں کرتے ہیں. پہلے راجہ سولنگی کی بطور سٹی صدر پیپلز پارٹی رحیم یار خان نامزدگی اور ان سے وابستہ توقعات کے حوالے سے بات ہو جائے.بلاشبہ سولنگی خاندان کی پارٹی خدمات، وفاداری اور خطرات کو مول لے کر مخالفین کا سامنا کرنے کی جرات اس خاندان کا طرہ امتیاز ہے. ان کے پاس افرادی قوت بھی ہے.سیاست کرنے کے لیےصرف مطلوبہ روپیہ پیسے کی کمی ہونے کی وجہ سے یہ لوگ آگے نہیں نکل سکے ہمیشہ بطور سیڑھیاں دوسروں کے کام آتے رہے ہیں. وطن عزیز میں اب تو سیاست مزید مہنگا کاروبار بن چکا ہے. یہ جاگیراروں سرمایہ داروں اور کالے دھن کے حامل لوگوں کا چونچلا اور شغل بن گئی ہے.جیالے نذیر احمد لاڑ ایڈووکیٹ، کانجو فیملی اور قاضی ویہا فیملی مشترکہ پلاننگ کرکے شہر میں کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مذکورہ بالا صاحبان میں اتنی باہمی برداشت اور سیاسی بصیرت بھی موجود ہے کہ نہیں. میں اس کڑوی اور تلخ بحث میں نہیں جانا چاہتا. اگرچہ شہر کی ڈیمو گرافی سماجی معاشرتی، معاشی و سیاسی صورت حال کافی بدل چکی ہے.مگر موجودہ سیاسی حالات اور گروپنگ میں کچھ حاصل کرنے کے چانسز بھی موجود ہیں مخدوم احمد محمود نے ماضی میں ایک بڑی شاندار کوشش کی تھی افسوس کہ نا سمجھ اور نااہل لوگ اسے سمجھ نہ سکے. کچھ شہر کی سیاسی منافقتیں بھی کام دکھا گئیں. یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے اس پر پھر کبھی تفصیل دے بات کریں گے بہرحال لوگوں کو مکافات عمل کے سرکل اور گھمن گھیرے کو سامنے رکھنا چاہئیے

یہ بھی پڑھیں: ننھی زینب کےقتل کوایک برس مکمل،جنسی درندےآج بھی آزاد

مسلم لیگ ن کے خواتین ورکرز کنونشن میں ڈویژنل صدر ایم این اے نورالحسن تنویر مہمان خصوصی تھے. ایم این اے شیخ فیاض الدین، سابق ایم این اے و ضلعی جنرل سیکرٹری میاں امتیاز احمد، سابق چیئرمین ضلع کونسل و ضلعی صدر سردار محمد اظہر خان لغاری ایم پی ایز چودھری محمد شفیق، چودھری ارشد جاوید،سابق ایم پی ایز چودھری عمر جعفر گجر، میاں اسلام اسلم، محمود الحسن چیمہ، پر کٹے شاہین میاں خالد شاہین وغیرہ سیمت کچھ دیگر لوگ سٹیج کی زینت بنے ہوئے تھے.مسلم لیگ ن کی نئی نویلی ضلعی جنرل سیکرٹری خالدہ پروین کنونشن کی کامیابی پر بڑی نہال نظر آ رہی تھی. یوں لگ رہا تھا کہ شاید آج اسے پر لگ گئے ہیں وہ اڑتی اڑتی دکھائی دے رہی تھیں.کنونشن کے انتظامات میں جہاں ضلعی صدر نسرین ریاض گجر کی کاوشیں قابل ذکر ہیں.وہاں پر شہر کے چودھری سلطان بندیشہ خاندان اور چودھری محمد یسین آرائیں صادق آبادی کی جماعت سے وابستگی اور جوش و جذبہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خالدہ پروین اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر سیاسی خدمات سر انجام دینے والے چودھری جاوید عباس نے مسلم ن کے تنظیمی پروگرام میں مہمانوں کو سرائیکی اجرکیں پہنا کر تقریب کو دھرتی کے ثقافتی رنگ سے رنگ دیا.یقینا یہ دھرتی اور دھرتی واسوں سے جڑت کا بہترین اظہار تھا.حالانکہ مسلم ن کے بارے میں مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سرائیکی زبان و ثقافت اور سرائیکی صوبے کے سخت خلاف جماعت ہے بلکہ لوگ اسے صوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی صوبائی اور وفاقی لیڈر شپ بھی سرائیکی ثقافت و شناخت کو فراغ دلی سے قبول کرکے اپنی سوچ اور پالیسی پر از سرے نو غور کرے اور اسے بدلے. بہرحال اس تقریب کے میزبانوں نے سرائیکی اجرکیں پہنا کر ایک اچھے پیغام کی بنیاد رکھی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ خطہ سرائیکستان کے تمام اضلاع کی تنظیموں کے لیے قابل تقلید عمل ہے.میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ضلع رحیم یار خان میں گجر فیملی کے علاوہ بھی کسی خاتون کو مخصوص سیٹوں پر ایم این اے یا ایم پی اے بننے کا موقع ملے گا یا نہیں? 
پیپلز پارٹی نے پہلی بار 12ستمبر کو اپنی تنظیم کے صدر سرائیکستان سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی سالگرہ کی چھوٹی چھوٹی تقریبات کا اہتمام کرکے اپنے ہونے اور جیالے پن کا ثبوت دیا ہے.ماشاء اللہ احمد سئیں59سے 60میں داخل ہو چکے ہیں. ضلع رحیم یار خان کے علاوہ ضلع بہاول پور میں ملک امتیاز چنڑ ایڈووکیٹ جیسے جیالوں نے مخدوم احمد محمود کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کرکے احمد سئیں کی سالگرہ تقریبات کو وسعت دی ہے. مخدوم احمد محمود کے سیاسی قد کاٹھ میں ایک خوبصورت اور محبتوں بھرے رنگ کا اضافہ کیا ہے.مجھے قوی امید ہے کہ اگلے سال رحیم یار خان بہاول پور کے ساتھ ساتھ ملتان مظفر گڑھ ڈیر غازی خان راجن پور وغیرہ سمیت پورے سرائیکی وسیب میں مخدوم احمد محمود کی سالگرہ تقریبات بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کی جائیں گی. یقینا سرائیکی وسیب میں یہ تقریبات مخدوم احمد محمود کی عوامی پذیرائی میں اضافے کا باعث بنیں گی.اگرچہ مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی سرائیکی وسیب کے صدر ہیں. کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ مخدوم احمد محمود ضلع رحیم یار خان کے سوا باقی سرائیکی وسیب میں تنظیمی کارکردگی دکھانے میں پہلے صدر مخدوم شہاب الدین کی طرح ابھی تک ناکام ہیں. اس کی کیا وجوہات ہیں یہ ایک علیحدہ ٹاپک ہے جس پر بعد میں بات کریں گے. یاد رکھیں مستقبل میں وطن عزیز کی سیاست میں خطہ سرائیکستان کی سیاسی اہمیت مزید بڑھے گی.ملک پر اقتدار کا فیصلہ اس خطے کے عوامی نمائندگان کی مرضی سے ہوا کرے گا

یہ بھی پڑھیں : اوکاڑہ: ڈی ایچ اوایس منصوبےکاافتتاح برگیڈٸیرسیدعلمدارحسین شاہ نےکردیا

محترم قارئین کرام،سیاست دانوں کی ہلچل اور تقریبات کے آغاز سے ایسے لگتا ہے کہ اس بار واقعی حکومت عنقریب بلدیاتی الیکشن کروانے جا رہی ہے.نئی تنظیمی نامزدگیوں اور عہدوں کے نوٹیفیکشن کی تقسیمِ کی تقریبات کارکنان کو ریڈی کرنے اور ٹوٹے ہوئے عوامی رابطے کو جوڑنے کا سلسلہ ہے. امید ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی تقریبات و دعوتوں کا سلسلہ تیزی پکڑے گا. سیاستدانوں کی نمازجنازوں، قل خوانیوں اور شادی بیاہ کے پروگرام میں کرونا سے بے خوف شرکت دیکھنے کو ملے گی.حالات بتا رہے ہیں کہ ضلع رحیم یار خان میں اس بار بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کا مقابلہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر کریں گے.بہت ساری جگہوں پر انہیں ایڈجسٹمنٹ کے معاملات میں  سیاسی پچیدگیوں کا بھی خاصا سامنا کرنا پڑے گا.ماضی کے بلدیاتی الیکشن کی طرح وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار میانوالی قریشیاں کے مخادیم کی عین موقع پر سوداگری کرے گا یا باہمی سیاسی و خاندانی معاہدے کے تحت میانوالی قریشیاں کے مخادیم کو کوئی بڑا بلدیاتی عہدہ دلائے گا.جہاں تک  پرلے صاحبان کا تعلق ہے. میرا خیال ہے کہ بھلا اور صلہ دونوں ان سے روٹھ چکے ہیں بہتر ہے وہ کسی عامل کامل سے استخارہ کروائیں.ضدی پن اور ہٹ دھرمی کو چھوڑیں اپنے اندرکچھ معاملہ فہمی پیدا کریں آنے والے سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی رحیم یار خان کو ایک سینیٹر دینے جا رہی ہے. دیکھیں مخدوم احمد محممود اور مخدوم شہاب الدین میں سے کون بنتا ہے?.سابقہ بلدیاتی الیکشن کی طرح آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی مخدوم احمد محمود کو سیاسی دھچکا لگنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent