Ticker

6/recent/ticker-posts

بت پرستی سےشخصیت پرستی تک

From idolatry to personality

تحریر سید ساجد علی شاہ 

گزشتہ دنوں ایک دوست کی دعوت پر اپنے ایک صحافی دوست کے ساتھ ایک صوفیانہ فکری نشست میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں کا ماحول اور نظم وضبط کو اور  وہاں عقیدت مندوں کی اپنے پیر سے والہانہ محبت کو دیکھ کر دل عش عش کر اٹھا اور دل میں بہت خوشی محسوس ہوئی کہ جن کے عقیدت مند اتنے صاحب علم اور بصیرت والے ہیں تو ان کے رہبر و رہنما تو آج کے  ولی ہوں گے لیکن جب ان عقیدت مندوں کی محفل میں ان کے رہبر نے  گفتگو شروع کی تو ایسا لگا جیسے ہم کسی سیکولر پارٹی کے جلسے میں آئے ہوئے ہیں ان کی گفتگو کا محور مولویت ازم اور اسلام مخالف باتوں کے سواء کچھ نہ تھا بلکہ اگر یہ لکھوں تو بہتر ہوگا کہ وہاں صرف شخصیت پرستی تھی جو شریعت سے لاعلم خیالی پلاو پکا رہے تھے، محفل کے اختتام کے بعد گھر واپسی تک میں یہ سوچتا رہا کہ جس بزرگ سے ان رہبر کی نسبت ہے وہ تو ایسے نہیں تھے، مجھے اس سیکولر ذہنیت کے مالک رہبر نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے شخصیت پرستی صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ اب تو ہم مذہب، کھیل، درگاہ، صحافت،بیوروکریسی سمیت دیگر شعبوں میں ہم بلاء کے شخصیت پرست بن چکے ہیں مذہب اور فرقوں میں شخصیت پرستی کی تو بات ہی چھوڑ دیں بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ شخصیت پرستی ہر مذہب اور ہر فرقے کا بنیادی جزو ہے آخر کب ہم جذبات اور فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر شخصیت پرست ہونے کی بجائے منطق پرست بنیں،بت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ظاہری شکل،اپنا خدا ماننا،بت پرستی میں عام طور پر پتھر،لکڑی یا دھات کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی شبیہ کو پوجا جاتا ہے یہ کوئی نیا مسلہ نہیں ہے اگر ہم اس کی کھوج لگانا شروع کریں تو ہمیں تاریخ کے وہ اوراق بھی کنگھنا پڑیں جو صدیوں پر محیط دھول مٹی پڑنے سے مخدوش ہوچکے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ شخصیت پرستی جیسے مسئلے کو بہت اہمیت دی گئی ہے حالانکہ بحثییت قوم پاکستانیوں کے اتحاد میں شخصیت پرستی ہی سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے مسلم ممالک میں قرآن سے دوری کی وجہ پر مختلف نوعیت کے گھمبیر مسائل پیدا ہوئے ہیں

یہ بھی پڑھیں : اپنا محاسبہ اور سال نو کا جشن

ان میں شخصیت پرستی بھی شامل ہے،اندھی تقلید ہماری رگوں میں اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ ہم شخصیت پرستی کی زد میں آکر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ہمارہ معاشرتی نظام پیشہ وارانہ صلاحیت کی بجائے بیکاری زیادہ پیدا کر رہا ہے جو انسان کی اساس مادیت اور روحانیت دونوں پر ہے اگر لوگ مادہ پرستی شروع کردیں یا روح پرستی شروع کر دیں تو معاشرے کے نظام میں بگاڑ آجائے گا انسان بذات خود اور اس سے وابستہ لوگ جمود کا شکار ہوکر کفر و شرک کی طرف مائل ہوجائیں گی برصغیر کے مسلمان طویل عرصہ تک بادشاہت اور کلونیل سامراجیت کے زیراثر رہے ہیں لہذا ان میں غلامانہ اور خوشامدانہ خصوصیات پیدا ہونا قابل فہم ہے۔ اللہ نے قرآن میں شخصیت پرستی اور خوشامد سے منع فرمایا ہے۔ شخصیت پرستی کو ”طاغوت“ کا نام دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی بجائے ”غیر اللہ“ انسانوں اور بتوں سے توقعات وابستہ کرلینا۔اگر مسلمان قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا شروع کردیں تو شخصیت پرستی اور خوشامد جیسی مہلک بیماریاں ختم ہوجائیں۔ قرآن ہدایت،رحمت اور شفا ہے۔ایک مفکر نے کہا تھا شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہوجائے لیکن جب انسان کی پوجا اور خوشامد کی جاتی ہے تو وہ فرعون بن جاتا ہے پاکستان میں شخصیت پرستی اور خوشامد کی مہلک بیماری ہر شعبہ میں پائی جاتی ہے پاکستان کے سیاسی رہنما 40 سال کی عملی سیاست کے بعد شخصیت کے بیٹے اور بیٹی کو کو اپنا لیڈر تسلیم کرکے اسکی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔۔ کب تک ہم شخصیت پرستی اور خوشامد کے کلچر میں مبتلا رہیں گے۔ مخصوص معنوں میں سمجھنے کی کوشش کریں۔تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ شخصیت پرستی، بت پرستی سے بھی چار ہاتھ آگے کا روگ ہے،بتوں کو پوجنے والے بھی جانتے ہیں کہ مٹی، لکڑی یا دھات سے بناء ہوا بت نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے، نہ چھو سکتا ہے اور نہ محسوس کر سکتا ہے اور تو اور اپنے منہ پر بیٹھی مکھی بھی نہیں اڑا سکتا جبکہ شخصیت پرستی اس کے برعکس ہے شخصیات کی پرستش ان کے دماغ خراب کر دیتی ہے اور ایک معمولی سا فانی انسان خود کو مافوق الفطرت سمجھنے کی حماقت میں مبتلاء ہو کر خود اپنا بیڑہ غرق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پجاریوں کو بھی لے ڈوبتا ہے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شخصیت پرستی، بت پرستی سے بھی چار ہاتھ آگے کا روگ ہے، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اس زمانے کے جرمن اور اٹالین ہٹلر اور مسولینی جیسوں کو کینڈے میں رکھتے تو کیا یہ دونوں اتنے ہی بھیانک انجاموں سے دوچار ہوتے؟ان دو کو بھی چھوڑیں کہ اگر یہ اور ایسے ہی چند اور کرشماتی لیڈروں کو دیوتائوں کی بجائے انسان ہی سمجھا جاتا تو کیا وہ کروڑوں انسان بچائے نہیں جا سکتے تھے جو دوسری جنگ عظیم کی بھینٹ چڑھ گئےجمہوری نظام شخصیت کی بجائے اُصولوں کی بنیاد پر پروان چڑھنا چاہیئے تا کہ جمہوریت مستحکم اور مضبوط ہوسکے۔ شخصیتوں کے دباﺅ میں رہنے والی جمہوریت کبھی ملک اور قوم کیلئے بار آور نہیں ہوسکتی۔ اب جمہوریت کا یہ ڈھونگ، ڈرامہ اور تماشہ اپنے انجام کو پنچ جانا چاہیئے اور حقیقی عوامی اور اُصولی جمہوریت کا آغاز ہونا چاہیے

یہ بھی پڑھیں : کارکنوں کی گرفتاریاں گھروں پرچھاپےناجائزہراساں کرنےکی شدیدمذمت کرتے ہیں،کٹھ پتلی حکمرانوں کو گھربھیج کردم لیں گے،مولانا حبیب الرحمن اکبر

syedsajidshahbukhari123@gmail.com


03053748065 موباٸل نمبر،

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent