Ticker

6/recent/ticker-posts

پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی

Rehabilitation of Local Bodies in Punjab

تحریر صابرمغل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے نے پنجاب حکومت کی جانب سے جاری آرڈننس کو کالعدم اور آئین کے منافی قراردیتے ہوئے صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی اداروں کو فوری بحال کرنے کا حکم جاری کر دیاپنجاب کے بلدیاتی ادارے 22ماہ بعد بحال ہوئے ہیں ان اداروں کو4مئی 2019کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ2019 گزٹ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا جس کے تحت صوبائی دارلحکومت سمیت 6 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کمشنرز،27اضلاع میں ڈپٹی کمشنرزجبکہ صوبہ بھر کے58ہزار بلدیاتی نمائندوں کو فارغ کر کے سرکاری افسران بطور ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیئے گئے ، ،اس اہم عدالتی فیصلے پر معطل شدہ تمام بلدیاتی نمائندوں اور ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جشن کا سماں پیدا ہو گیا اور حکومت مخالف لہر میں اضافہ ہو گیا ،چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لئے منتخب کیا جنہیں ایک آرڈننس کا سہارا لے کرگھر بھیجنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے بلدیاتی ایکٹ2019کی شق 3ماضی میں آئین پاکستان کا حصہ بننے والے قانون کے مترادف ہے پاکستان تحریک نصاف کی حکومت کے بر سر اقتدار آتے نے کے بعد عوام ان گنت خواہشات کو گلے لگائے بیٹھی تھی جہاں دیگر بہت سے عوامی وعدے تھے وہیں یہ بھی تھا کہ اختیارات کو نچلی سطع تک بہت جلد منتقل کیا جائے گا اقتدار اقتدار ہی ہے جیسے ہی کوئی اس سنگھاس پر بیٹھتا ہے تو ایک طرف اسے جہاں حکمرانی کا خمار کچھ نہیں کرنے دیتا وہیں حواریوں کا بھی انتہائی عمل دخل رہتا ہے پی ٹی آئی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے پاس سیاسی طورپر منجھے ہوئے کھلاڑیوں کی زبردست ٹیم ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن الزامات،قید کی سزا اور ان گنت نئے کیسز کے باوجود وہ میدان میں ٹھوک بجا کر کھڑے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے پاس ایسا نہیں ہے وہ اختیارات کو نچلی سطع تک ضرور پہنچانا چاہتی ہوگی

یہ بھی پڑھیں : تجدید عہد کا دن

مگر اسے ڈر اور ادراک تھا کہ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں عوام اسے مسترد کر دیں گے محض اسی وجہ سے بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کے مختلف حربے استعمال کئے گئے کرونا جیسی موذی وباء بلاشبہ ایک حقیقت ہے مگر حکومت نے اس کا بھی خوب بہانہ بنایا،مہنگائی اور نت نئے تجربے ،عوامی بدحالی نے عوام کو پیار کرنے والے،دعویٰ کرنے والے،ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی سوچ رکھنے والے لیڈر سے دور کر دیا اس بات کو وزیر اعظم نے بھی بر ملا کہا کہ دنیا بھر میں تمام ترقی یافتہ ممالک میں تب تک عوام کی حالت نہیں سدھرتی جب تک حکومتی اقدامات کو نچلی سطع تک نہ لایا جائے اور ہے بھی ایسا ہی ،مگر اب عدالتی فیصلہ کے بعد جتنی خوشی مسلم لیگ کے لیڈران کو، حکومت مخالف عناصر کو ہوئی ہے وہ کسی اور کو نہیں جن کی بحالی ہوئی ان سے بھی بڑھ کر ،حکومت کے چغادریوں کی وجہ سے ہزاروں منتخب عوامی نمائندوں کو گھر بھیجا گیا الٹا اس کے متبادل کسی بہتر اقدام کو پایہ تکمیل پہنچانا بھی ضروری خیال نہ کیا گیا

شاید عمران خان کو تباہی کی وجہ بارے تو نہیں بلکہ یہ ضرور سرگوشی کی گئی ہو گی کہ حضور اگر بلدیاتی انتخاب کروائے گئے تو بہت بری حالت ہو گی اب اس عدالتی فیصلے کے بعد ضروری ہے کہ عمران خان ایسی ہی سرگوشیوں کو مزید ترجیح دیں تاکہ جو کسر رہتی ہے وہ بھی پوری ہو جائے ، عدالت میں یہ کیس پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی اور دیگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے سماعت ہوئی اس کیس کے درخواست گذاروں میں مسلم رہنماء لیگی دانیال عزیز اور اسد علی خان شامل تھے جو اپنے وکلاء کے ہمراہ پیش ہوئے،اسی کیس کی سماعت 15مارچ کوپہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی اور ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت کا آرڈننس آئین کی خلاف ورزی ہے پنجاب حکومت کا یہ آرڈننس در حقیقت سپریم کورٹ پر حملہ ہے،انہوں نے کیس کی نزاکت کے پیش نظر یہ معاملہ مزید سماعت کے لئے تین رکنی بینچ تشکیل دینے کے لئے چیف جسٹس کو بجھوا دیا اور رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ پینچ کی تشکیل دینے کی فائل جلد از جلد چیف جسٹس کو بجھوائیں دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید نے کہا باقی صوبوں کے مردم شماری پر اعتراضات ہیں اس لئے مشرکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24مارچ کو طے تھا جو وزیراعظم کے کورونا شکار کی وجہ سے اب 7اپریل کو طے ہے،چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کا یہ بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں صوبے مئی میں بلدیاتی انتخاب کرا دیں جس اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ یہ صرف وفاق کا نہیں بلکہ صوبوں کا بھی معاملہ ہے،چیف جسٹس نے کہا آرٹیل 140کے تحت قانون بنا سکتے ہیں لیکن ادارے ختم نہیں کر سکتے آپ کو کس نے غلط مشورہ دیا،حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہے وہ وفاق ہو،صوبائی ہو یا بلدیاتی ہو آپ اختیارات میں تبدیلی کر سکتے ہیں ،بنیادی ڈھانچہ بہتر بنا سکتے ہیں ،وجہ بتائیں کس قانون کے تحت بلدیاتی ادارے ختم کئے گئے،انتخابات نہیں کرا سکتے تو پھر بلدیاتی ادارے بحال کیوں نہیں ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے بتایا کہ کرونا وباء کی وجہ سے انتخاب نہیں کرا سکے،ہم انتخابات کرانے کے لئے تیار اور چاہتے ہیں کہ اختیارات کو نچلی سطع تک منتقل کیا جا سکے،یہ معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التوا ہے،جسٹس اعچاز الاحسن نے کہا وفاقی ،صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو محدود مدت کے لئے ختم نہیں کیا جا سکتا کیا گلگت بلتستان میں الیکشن نہیں ہوئے یہ دوہرا تضاد اور میعار ہے،آپ اختیارات نچلی سطع تک منتقل کرنے کی بجائے ادارے ہی ختم کر رہے ہیں ،درخواست گذاروں کے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہاپناجب میں بلدیاتی اداروں کی مدت دسمبر2021تک ہے 2018کے انتخابات مین وفاق اور پنجاب میں بر سر اقتدار آنے والی نئی حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرتے ہوئے ایک سال میں الیکشن کرانے کا وقت دیا تاہم ایک سال کی مدت گذرنے کے بعد پنجاب حکومت نے آرڈننس کے ذریعے نئی ترمیم کر دی ،جس پر چیف جسٹس نے کہا درخواست گذار نے پنجاب کا نیا آرڈننس چیلنج کیا ہے اور ہم قانون کے سیشکن 3کو کالعدم قرار دیتے ہیں آپ اس بات کی کیسے وضاحت کر سکتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو ان سے دور رکھا جائے ،بلدیاتی اداروں کی معطلی کے تحلیل رہنے کے دوران بلدیاتی ایکٹ2019کے تحت تعینات ہونے والے ایڈمنسٹریٹرز بلدیاتی ایکٹ2013 میں دیئے گئے اختیارات استعمال کرتے رہے،نئے ایکٹ کے سیکشن 120کے تحت الیکشن تک ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوں گے اور ایک سال کے اندر اندر دوبارہ الیکشن کروانا لازم ہیں

پاکستان الیکشن کمیشن بھی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے قانونی مشکلات اور تحفظات میں الجھتا رہا کیونکہ تاحال حکومت نے باضاطہ طور پر مردم شماری 2017کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا،الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخاب کرانے کا آئینی پابند ہے گمر یہ اس وقت تک غیر قانونی رہے گا جب تک نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہو،الیکشن کمشنر آف پاکستان سلطان سکندر راجا نے اس معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس بارے نشاندہی کرتے ہوئے مداخلت کا کہا،انہوں نے بیورکریسی کو بھی لکھا ضروری ہے کہ مردم شماری کے حتمی نتاءج جتنی جلدی ممکن ہوں با ضابطہ شاءع کئے جائیں لیکن حکومت سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ایسا نہ کر سکی ،الیکشن کمیشن آئین کی دفعہ 218،(3)دفعہ219ڈی اوردفعہ 240اے(2)کے تحت بلدیاتی انتخاب کروانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے حلقہ بندیاں کرسکے،ان حلقہ بندیوں کا عمل حتمی نتاءج تک ممکن نہیں الیکشن کمیشن کے مطابق قومی و صوبائی حلقوں کی تعداد849جبکہ بلدیاتی حلقوں کی تعداد25ہزار ہے،اس دوران پنجاب حکومت 3مراحل میں انتخاب کرانے پر راضی ہوئی لیکن ساتھ یہ کہا یہ انتخابی عمل پہلے ڈویژن سطع پر ہو نہ کہ ضلعی سطع تک،صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار انتخاب کا فیصلہ کرے توہم ہر مرحلے میں 3ڈویژنز میں انتخابات کرا سکتے ہیں ،پنجاب میں بلدیاتی انتخابات2016 میں ہوئے ھتےاور ان کی مدت اس سل کے آخر میں مکل ہونا تھی پنجاب کے کسی بھی ضلع میں حکرمان جماعت کی حکومت نہیں تھی اس صوبے کے ہر ضلع میں میٹرو پولیڑن، میونسپل کمیٹیز،ٹاءون کمیٹیز اور یونین کونسلز میں مئیر ،ڈپٹی مئیر، چیر مین وائس چیر مین سب مسلم لیگ (ن) کے تھے اسی وجہ سے اس فیصلہ کے بعدمیاں نواز شریف نے ایک ٹویت میں کہا پنجاب کے بلدیاتی نطام کی بحالی ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کی جیت ہے عوام کے ہاتھوں قائم ہر ادارہ مقدس ہے اور اس کو غیر قانونی طور پر تحلیل کرنا آئین سے غداری ہے،ان کا یہ بیان خالصتاً سیاسی ہے اسے کسی بھی تناظر میں لیا جا سکتا ہے،تاہم بلدیاتی حوالے سے یہ


بہت بڑی تبدیلی کسی معجزے سے کم نہیں ،ممکن ہے اس ہی عوامی مسائل کا حل ان کے گھروں تک پہنچ سکے 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent