Ticker

6/recent/ticker-posts

مہنگائی کا سونامی اور وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی چھٹی

Tsunami of inflation and leave of Finance Minister Abdul Hafeez Sheikh

تحریر صابر مغل

موجودہ حکومت میں جہاں عوام کو مہنگائی لے ڈوبی وہاں پہلے اسد عمر اور اب عبدالحفیظ مہنگائی کے سونامی کا شکار ہوگئے وفاقی وزیر خزانہ کی تبدیلی کے فیصلے کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر خزانہ کو مہنگائی کی وجہ سے ہٹایا گیا عمران خان اب ان سے مطمئن نہیں تھے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ایسا فیصلہ کیا گیا وفاقی کابینہ میں مزید ردو بدل جس میں کئی پرانے چہروں کے قلمدان میں تبدیلی اور بعض نئے چہرے شامل ہو رہے ہیں ،وزیر اعظم حماد اظہر سے مطئمن ہیں امید ہے نئی معاشی ٹیم مسائل پر قابو پانے میں بہترین کردار ادا کرے گی عمران خان کی سیاست کا محور غریب لوگ اور بڑھتی مہنگائی کا خاتمہ ہے سندھ کے شہر جیکب آباد میں آنکھ کھولنے والے عبدالحفیظ شیخ قسمت کے بہت دھنی قوم کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں وہ مسلم لیگ (ق)پرویز مشرف،پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے منسلک رہنے والی انمول شخصیت ہیں عمران خان نے انہیں 20اپریل2019سے بطور مشیر خزانہ منسلک ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ کو عمران خان نے ایک نوٹفکیشن کے ذریعے وزیر خزانہ مقرر کر دیا وزیر اعظم نے آئین کی دفعہ91کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کیا جس کے مطابق وزیر اعظم کسی بھی شخص کو 6ماہ کے لئے وفاقی وزیر بنانے کا اختیار رکھتے ہیں ،اسی آئین کی شق9کے مطابق6ماہ کے لئے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہونے والے فرد پر لازم ہے کہ اسے دوبارہ وزیر بننے پر پہلے قومی اسمبلی یا سینٹ کا رکن منتخب ہونا ہوگا اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کیس میں ریمارکس دئیے کہ ایک غیر منتخب شخص کابینہ کمیٹی کا ممبر نہیں بن سکتا یہی وجہ بنی کہ اسے مزید ترقی دیتے ہوئے مکمل وزیر کا عہدہ تفویض کر دیا گیا،مارچ میں حکومت نے اسلام آباد کی نشست سے انہیں امیدوار ٹھہرایا مگر وہ یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کھا گئے اسی پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم علی خان نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ سینٹ الیکشن میں ناکامی پر ایک غیر منتخب شخس کے فائز رہنے پر سوال اٹھ رہے ہیں حقیقی جمہوری ممالک میں لوگ عوامی دفاتر ہارنے کی صورت میں رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دی دیتے ہیں ایسا لگتا ہے حفیظ شیخ اپنا بستہ تھامے رہیں گے اور کام ختم کر کے ہی وہاں سے جائیں گے وہ کام کیا تھا جو وہی تھا اور ہے جسے پاکستان کے کروڑوں عوام انتہائی تکلیف ،مصیبت دکھ اور فاقہ کشی میں بھگت و برداشت کر رہی ہے پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اسد عمر پاکستانی تاریخ کے پہلے وزیر ہیں جن کا کامیابی سے قبل ہی بطور وزیر خزانہ اعلان کر دیا گیا جبک پاکستان جیسے ملک میں معاشی صورتحال ریڑھ کی ہڈی مانند ہے جس پر ہر طرح کے غورو غوض کے بعد ایسا تقرر کیا جاتا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ،اسد عمرکے چارج لیتے وقت شرح سود7 فیصد تھی جو10تک جا پہنچی منگائی کی شرحسے ترقی کرتی ہوئی تک جا پہنچی ،پٹرولیم مصنواعت،ادویات بجلی سمیت ہر طرح کی وہ چیز بھی مہنگائی کے طوفان کی زد میں آگئی ڈالر کم از کم 20مہنگا اور روپے کی قدر گھٹ گئی 19اپریل 2018کو عمران خان نے پنڈی میں ایک فوجی آفیسر کے گھر جنم لینے والے اور انتہائی قریبی دوست اسد عمر کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد حفیظ شیخ کو عوامی معاشی قتل کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں عبدالحفیظ شیخ نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بوسٹن یونورسٹی امریکہ سے حاصل کی ہارورڈ یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر بھی رہے، وہ کئی برسوں تک عالمی بینکوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور ان کی پالیسیاں لاگو کرنا ہی ان کا اصل کام ہے حفیظ شیخ اپنے 35سالہ کیرئیر میں ملک اور بیرون ملک عالمی بینک کے اہم ٹاسک حاصل کرنے میں کامیاب رہے

یہ پڑھیں: بجلی کے نرخ بڑھ گئے،نیپرا

 وہ عالمی بینک کے سعودی عرب میں ملکی سربراہ کے علاوہ بطورسینئیر مشیر 21ممالک میں کام کر چکے ہیں ،انہوں نے بطور وزیر خزانہ مشرف دور میں 34اداروں کو 5ارب ڈالر میں فروخت کیا،پیپلز پارٹی کے دور مین انہیں عالمی سطع پر دباءو کے باعث یہ اہم ترین وزارت ملی ان کے اس دور کو ملکی دور کا معاشی لحاظ سے سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے ان کے بجٹ میں نہ عوامی ریلیف نہ معاشی اصلاحات،مہنگائی کی شرح بلند ترین سطع پر،ٹیکسوں کے اہداف میں ناکامی ،بجٹ خسارے میں تیزی سے اضافہ جبکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی بلکہ منفی سطع تک پہنچ گئی حفیظ شیخ سندھ حکومت کے صوبائی وزیر،مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کی حیثیت سے مشرف دور میں وزیر پرائیویٹائزیشن پھر پیپلز پارٹی نے انہیں سینیٹر بنا کر یہی وزارت خزانہ ان کی جھولی میں ڈال دی ،اب حکومت نے ان کی جگہ حماد اظہر سمیت معاشی ٹیم کو لے آئی ہے اس تبدیلی کا دعویٰ عوامی محبت نہیں بلکہ سینٹ میں ناکامی ان کے ہٹائے جانے کا سبب بنی ہے حماد اظہر سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے صاحبزادے اور بیرسٹر بھی ہیں جنہوں نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور ،بعد میں ولینگٹن کالج لندن ،ڈویلپمنٹ اکنامک کی ڈگری لندن یونیورسٹی سے اور میں گریجویشن سکول سے حاصل کی وہ لنکننز ان کیمرج میں بھی رہے یہ وہی جگہ ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے وکالت کی تھی وہ اپنے بہترین کاموں کی وجہ سے گلوبل ینگ لیڈرز کی فہرست114 میں بھی شامل رہے،میاں محمد اظہرپڑے پایہ کے سیاستدان تھے میاں نواز شریف سے ان کا انتہائی قریبی تعلق تھا وہ1990 میں تین سال تک گورنر ہاءوس میں رہے،شریف خاندان سے ان کے اختلاف کی خلیج اس وقت نہ صرف ابھری بلکہ فیصلہ کن ثابت ہوئی جب انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی میں سابق وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کو مدعو کیا عبدالحفیظ کی موجودہ حکومت میں شمولیت توقع ہے کہ انہیں کسی نہ کسی صورت ساتھ ہی رکھا جائے گا عمران خان کے بنائیے کی100فیصد نفی تھی انہوں نے ماضی میں ملکی معیشت کے نقصان میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ،یہ کیسے ممکن ہے کہ ان عالمی مالیاتی اداروں سے پشن وصول کرنے والا ان کے مفادات کا نگہبان نہ ہوگا ان کی وزارت میں پاکستان کو معاشی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے مگر یہ بڑوں اور عالمی کھلاڑیوں کے کھیل ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر جن میں عام آدمی کی نہ تو کوئی وقعت ہے اور نہ ہی کوئی جگہ ،عوامی مفادات کی بر خلافی تو ان کی بنیادی ضد ہے،یہ کوئی خیالی باتیں نہیں عوام اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب ہاتھ اٹھا کر بیٹھی ہے جس میں مخالفین کی محبت نہیں ببلکہ اپنی نیم مردہ حالت کا رونا شامل ہے،اقتدار کی راہداریوں میں کسی کے جانے کسی کے آنے پر عوام تالیاں نہ بجائیں در حقیقت یہ راہداریاں بنی ہی ایسوں کے لئے ہیں عوام کے نصیب میں رونا دھونا ہے وہ جتنا مرضی رو دھو لیں یہاں حالات بدلتے دور دور تک نظر

یہ بھی پڑھیں : وزراء مخدوموں کی سخاوت اور سینکڑوں دریا بُرد گھر؟


نہیں آتے ان کی جگہ کوئی اور آیا تو ممکن ہے وہ ان سے بھی زیادہ گل کھلائے 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent