Ticker

6/recent/ticker-posts

ٹیم ہمارا پاکستان

Our team is Pakistan

تحریر سیدساجدعلی شاہ

جس قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ہوتی ہے، کچھ کرگزرنے کا جذبہ ان میں انگڑائی لینے لگتا ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ وہ قوم ترقی کی معراج پر ہوتی ہے اور جس قوم کے نوجوان خوابیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ قوم روز افزوں تنزل کی طرف بڑھتی رہتی ہے ضلع رحیم یارخان کی دھرتی نے کئی نامور اور گمنام سپوت پیدا کیے ہیں ان میں سے ایک رانا زبیر رشید اور دوسرے سیدعلی حیدر گیلانی ہیں رانا زبیر رشید اور سید علی حیدر گیلانی دو ایسے پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو ہمہ وقت غریبوں کی مدد کرنے کےلیے تیار رہتے ہیں ان دونوں نوجوانوں نے آج سے  ایک سال قبل" ٹیم ہمارا پاکستان" کے نام سے ایک گروپ بنایا جس میں سکولوں اور کالجوں کے نوجوانوں کو شامل کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت متعدد ایسےکام کر چکے ہیں کہ جس نے ہر شہری کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ خدمت عوامی جذبہ کے تحت کی جائے تو ثواب ملتا ہے، ٹیم ہمارا پاکستان رحیم یارخان تحصیل کے بعد اب تحصیل صادق آباد میں بھی اپنا مضبوط نیٹ ورک بنا چکی ہے جہاں ٹیم ہمارا پاکستان کے چئیرمین سفیان ارشد، صدر اویس ارشد، ممبران عثمان احمد، حسن رضا شاہ، جاوید ساہی، شاویز حسین، علی شوکت، فہیم اسلم، کامران حیات اور عدیم احمد , اسی طرح رحیم یارخان تحصیل کے صدر رئیس عدنان، سید مدد شاہ، میڈیا ہیڈ داود جٹ سمیت دیگر نوجوان جانفشانی اور محنت و لگن کے جذبہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ٹیم ہمارا پاکستان کا ہر کارکن بڑی محنت اور جذبہ کے ساتھ کام کر رہا ہے میں کس کا نام لکھوں اور کس کا نہیں میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کس طرح ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کروں جو نیک کام کرنے میں مگن ہیں ان نوجوانوں کے پھولوں پر مشتمل یہ گلدستہ اب تک یہ ممبران  ضلع رحیم یارخان میں سنیکڑوں افراد کو خون کا عطیہ دے چکے ہیں اور ہزاروں درخت بھی لگا چکے ہیں،  کسی غریب کے گھر راشن ہو یا کسی غریب لاچار کی بیٹی کا علاج معالجہ، اپنے اداروں خاص کر ضلعی انتظامیہ کے شانہ بشانہ معاشرے میں پائی جانے والے برائیوں کا قلع قمع کرنا، غریب بچیوں کی شادی کرنا سمیت سینکڑوں فلاحی منصوبوں کو عملی جامعہ پہنا رہے ہیں رانا زبیر رشید اور سید علی حیدر گیلانی نے ایک سال قبل جو پودا لگایا تھا آج وہ ایک تناور درخت بنتا جارہا ہے اور جس کے ثمرات پھلنا پھولنا شروع ہوچکے ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ " جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘ اسلام مکمل ضابط بیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اقلیتوں کو جتنے حقوق اسلام نے دیے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔ اسلام نے انسانیت کو سب سے مقدم رکھا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین کہا ہے اور اپنے وعدے کے مطابق وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا آج کے اس پرآشوب دور میں ہر شخص مسائل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام تلخیوں اور پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں، خاص طور پر نوجوان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایسے میں قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے عملی طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنا انسانیت اور عبادت ہے۔ جو انسان دوسروں کے غم میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے اپنے غم مٹ جاتے ہیں۔ زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جا رہا ہے، باہمی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے

یہ بھی پڑھیں : گستاخانہ حرکات کے خلاف بائیکاٹ کی مہم خود قیادت کروں گا،وزیراعظم عمران خان

ملک میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام ہے مگر ہمارے ملک میں زیادہ تعداد ان سے بھی محروم ہے، آج کے پرُ فتن دور میں ایسے اداروں کا قیام بے حد ضروری ہے جو خدمت خلق فلاحی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اسلام کے عملی تعارف کے لئے خدمت خلق کا میدان سب سے پسندیدہ اور مؤثر عمل ہے۔ فلاحی و سماجی خدمات میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے آج کے اس جدید دور میں جب ہر انسان نفسانفسی اور مادیت میں کھو چکا ہے تب بھی روشنی کے چند منارے موجود ہیں یہ وہ لوگ ہیں جب ہم مشکل میں ہوتے ہیں تو یہ بنا کسی مفاد اور لالچ کے ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔۔۔ان میں سے ایک گروہ ان دوست اور ہمدرد لوگوں کا بھی ہے جو ہمارے حادثات اور اور آپریشن کی صورت میں ہمارے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت اور خون دے کر  ہمارے مریضوں اور لواحقین کو ایک نئی زندگی میں مددگار بنتے ہیں لیکن نہایت قابل افسوس بات ہے کہ پاکستان میں محفوظ، معیاری اور صاف خون کا حصول مشکل ہوچکا ہے جس کی بنیادی وجوہات حکومت کی عدم دلچسپی اور عوام میں عطیہ خون کا فقدان ہے، عام طور پر لوگوں میں تاثر ہے کہ خون دینے سے انسان کمزور ہوجاتا ہے یا خدانخواستہ کوئی بیماری لگ سکتی ہے جبکہ اس کے برعکس طبی ماہرین عطیہ خون کو صحت کیلئے مفید قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک صحتمند انسان ہر 3 ماہ بعد سال میں 4 مرتبہ خون کا عطیہ دے سکتا ہے اور یہ سلسلہ 40 سال کی عمر تک مسلسل جاری رکھا جاسکتا ہے۔ عطیہ کی گئی خون کی ایک بوتل بیک وقت 3 انسانوں کی جان بچانے کیلئے کارآمد ہوسکتی ہے، جو نا صرف صدقہ جاریہ ہے بلکہ قرآنی احکامات کی بھی تائید ہے جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا کہ اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی‘‘۔ اگر ہم ملکی سطح پر دیکھیں تو معاشرے میں عطیہ خون کا رحجان زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوتا جارہا ہے، جس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے، اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 40 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن بمشکل 15 سے 20 لاکھ تک رضا کاروں سے جمع ہو پاتی ہیں، مریضوں کو قریباً 3 فیصد تک عزیز و اقارب سے خون مل جاتا ہے، ہمارے ہاں خون عطیہ کرنے کی مجموعی شرح ایک سے 3 فیصد ہے، ترقی یافتہ ممالک میں یہ 39 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں تمام عمر دوسروں کے خون پر زندہ رہنے والے تھیلیسیمیا کے 5 ہزار اور بلڈ کینسر کے 6 ہزار مریضوں کا ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ ادھر اسپتالوں کی ایمرجنسی میں لائے جانیوالے تقریباً 10 ہزار افراد کو خون کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ سالانہ بڑھتے ہوئے ہیپا ٹائٹس کے ڈھائی لاکھ جبکہ ملیریا اور ڈینگی سے متاثرہ ہزاروں مریض الگ ہیں جنہیں ہمہ وقت خون کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی سلسلے میں "ٹیم ہمارا پاکستان" نے اپنا ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے ہم باہمی رابطہ کر سکیں اور مشکل وقت میں اپنا انسانی اور مذہبی فریضہ سرانجام دے سکیں۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ٹیم ہمارا پاکستان کے ہر کارکن کو  صحت

یہ بھی پڑھیں : تعلیم نسواں


کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent