Ticker

6/recent/ticker-posts

بدقسمت نذیراں

Bad luck

کالم نگار، تحسین بخاری

نزیراں کا تعلق پنجاب کے آخری ضلع رحیم یارخان کے قصبہ آباد پور سے ہے اور یہ اسی علاقے کی رہنے والی ایک بدنصیب بیٹی ہے جس کا شمار ملک پاکستان میں پیدا ہونے کا جرم کر بیٹھنے والی ان بیٹیوں میں ہوتا ہے جو کالا کالی جیسی فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھ کر کچھ تو زندہ درگور ہوچکی ہیں اور کچھ چلتی پھرتی لاش بن کر رہ گئی ہیں۔

نذیراں کے بھائی ناصر کا اپنی برادری کی ایک لڑکی سے رشتہ طے تھا یہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پسند کی زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا بھی اس معاشرے میں کسی جرم سے کم نہیں کسی وجہ سے لڑکی کے گھر والے اس رشتے سے انکاری ہوگئے جب ہر کوشش ناکام ہوگئی تو ان دونوں نے کورٹ میرج کرلی لڑکی کے گھر والوں کو یہ سب ناگوار گزرا ایک پنچائت بلائی گئی پنچائت نے ان دونوں کے قتل کا حکم جاری کردیا اب مسئلہ یہ تھا کہ قتل کر کے سزا سے کیسے بچا جائے سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ فیصلے کی حمایت کرنیوالی برادری سے فنڈ اکٹھا کرکے پولیس کو خریدا جاے اور پھر غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب رقم اکٹھی کرکے متعلقہ پولیس کے حوالے کردی گئی ادھر پسند کی شادی کرنے کا جرم کرنیوالے اس جوڑے کو پنچائتی فیصلے کا علم ہوا تو یہ جان بچانے کیلیے گاؤں سے فرار ہوگیا اور دس ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کے والدین کو کچھ خبر نہیں کہ یہ کہاں ہیں کس حال میں ہے اور زندہ بھی ہیں یا نہیں

ناصر کی بوڑھی ماں آمنہ مائی نے برادری کے وڈیروں کے ترلے شروع کردئیے کہ میرے بیٹے کی جان بخشی کروائی جائے میں بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی ہوں اس کے بدلے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں چنانچہ ایک بار پھر پنچائت ہوئی پنچائت میں شامل نام نہاد معززین نے ایک ایسا نادر شاہی فرمان جاری کیا جسے سن کر حواء زادیوں کی روح تک لرزاٹھی۔

یہ بھی پڑھیں : مہنگائی کی چکی میں پستی عوام

حکم سنایا گیا کہ بیٹے کی جان بخشی کیلیے آمنہ مائی کواپنی دو بیٹیاں ونی کرنی ہونگی آمنہ مائی کے پاس اب دو راستے تھے کہ یا تو وہ خود کو اپنے بیٹے سے محروم کرے یا پھر بیٹے کو بچانے کیلیے اپنی دو بیٹیاں قربان کردے چنانچہ اس نے بیٹیوں کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا آمنہ مائی نے رخصتی کیلیے کچھ دن کی مہلت مانگی تو پنچائت کے نام نہاد معززین نے حکم جاری کیا کہ ایک تو ان دونوں لڑکیوں میں سے نذیراں کی رخصتی ابھی اور اسی وقت ہوگی اور دوسرا یہ کہ نذیراں تاحیات نا تو خود اپنے میکے جا سکتی ہے نا ہی میکے والے اسے جا کر کبھی مل سکتے ہیں چنانچہ اسی وقت قاضی بلایا گیا دونوں بیٹیوں نذیراں اور وزیراں کا نکاح ہوا اور معاہدے کے مطابق نذیراں کی رخصتی عین اسی وقت کردی گئی شاید یہ دنیا کی واحد دلہن تھی جس کے ہاتھوں پہ منہدی کی بجائے پیلاہٹ تھی جسم پر عروسی جوڑے کی بجائے میلے کچیلے کپڑے تھے پاؤں میں پائل کے بجائے مجبوریوں کی زنجیر تھی ماتھے پر بندیا کی جگہ ناکردہ گناہ کا داغ تھا سرپر لال چنری کی بجائے پھٹا پرانا دوپٹہ تھا جس میں اگر وہ اپنے درد بھی سمیٹنا چاہتی تو شاید نا سمیٹ سکتی کیسی بارات اور کونسی ڈولی وہ بابل کے صحن میں بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی کہ ماں نے اسے پنچائت کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ لہٰذابہن بھی اپنے بھائی کیلیے قربان ہونے کیلیے تیار ہوگئی ماں بیٹی نے زندگی کی آخری ملاقات کی بیٹی ماں کے سینے سے چمٹ کر خوب روئی نذیراں نے ایک حسرت بھری آخری نگاہ اپنے بابل کے آنگن پر ڈالی اوراسےہمیشہ کیلیے چھوڑ کر درد نگر کو چل دی

یہ بھی پڑھیں : سب انسپکٹر سے چھوٹے رینک کا افسر ناکہ نہیں لگائے گا، آئی جی پنجاب

نذیراں کی رخصتی کے کچھ دن بعد آمنہ مائی نے دربدر بھٹکنے والے بیٹے اور بہو کو پیغام بھجوایا کہ صلح ہوگئی ہے لہٰذا وہ گھر واپس آجائیں جس روز وہ گھر واپس آرہے تھے اسی روز نذیراں کے دو چچا زاد بھائیوں پر تھانہ آباد پور کے گیٹ کے بالکل سامنے لڑکی کے رشتہ داروں نے کلہاڑیوں اور ٹوکوں سے قاتلانہ حملہ کردیا اور اپنے طور پر انہیں جان سے مار کر چلے گئے شاید پولیس وہ پانچ لاکھ روپے وصول کر چکی تھی اس لیے پولیس سامنے کھڑی تماشہ دیکھتی رہی اہل علاقہ پولیس کی اس کھلی تماش بینی پر سراپا احتجاج ہوئے تب پولیس نا چاہتے ہوئے آئی اور ان زخمیوں کو ہسپتال ریفر کردیا اورپھراپنی آنکھوں کے سامنے ہونیوالے سنگین واقعہ کا مقدمہ 34/21 ڈیڑھ ماہ کی تاخیر سے ددرج کیا اور اس میں کوئی بھی سنگین نوعیت کی دفعات شامل نا کیں جس سے ملزمان ایک دن کیلیے بھی جیل نا جا سکے اس قاتلانہ حملے کے فورا بعد بے فکرھوکر یہ حملہ آور گروپ سیدھا اپنے گھر گیا اور جاتے ہی نذیراں پر دھاوا بول دیا اس پر اتنا تشدد کیا کہ اس کا بازو ہی ٹوٹ گیا،ادھر ناصراور اسکی بیوی کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو وہ گھبرا گئے اور گھر واپس آنے کی بجائے پھر کہیں روپوش ہوگئے۔

نذیراں کا چچا اکرم جوکہ اس کیس کی پیروی کررہا تھا ملزمان پارٹی نے ایک بار پھر 3 اگست کو اس پر قاتلانہ حملہ کردیا اور بھرے بازار میں اسے گھسیٹ گھسیٹ کر مارتے اور ویڈیو بناتے رہے یہاں بھی پولیس نے پری پلان ملزمان پارٹی کو فل فیور دی اور قاتلانہ حملے کی بجائے محض 506/B کے تحت مقدمہ نمبر 257/21 درج کیا پھر ان ملزمان نے پہلے کیطرح گھر جاکر نزیراں پر دھاوا بول کر اس کا وہی بازو جو ابھی پورا جڑ نہیں پایا تھا کہ دوبارہ توڑ دیا۔

نذیراں ایک طرف تو اپنے والدین سے ساری زندگی کیلیے دوری کا عذاب جھیل رہی ہے تو دوسری طرف ان سفاک درندوں کے ظلم کا بھی شکار ہے نذیراں کی طرح پتہ نہیں کتنی حواء زادیاں اس سفاک رسم کی بھیٹ چڑھ کر زندگی بھر کی اذیت بھگت رہی ہیں، نزیراں کی زندگی کا الم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سارے کھیل میں پولیس برابر کی شریک جرم ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات اور کالا کالی جیسی فرسودہ رسم کے خلاف کھل کر آواز اٹھائیں تاکہ کوئی موثر قانون سازی ھواور آئندہ کوئی نزیراں ونی ہو کر ساری زندگی کیلیے اذیت جھیلنے پر مجبور نا ہو

بدقسمت نذیراں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent