Ticker

6/recent/ticker-posts

سچی بات

truth

کالم نگار، سیدساجدعلی شاہ
گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ ن کے ضلعی رہنما میاں بشیر یوسف سے ان کے آفس میں ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے بندہ ناچیز کا پرتپاک استقبال کیا ان سے ملکی و ضلعی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی ملاقات کے دوران میاں بشیر یوسف کا کہنا تھا کہ آج وطن عزیز کے ہر شعبے میں افراتفری پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے پرائیویٹ شعبے سے لے کر پارلیمنٹ تک بے چینی اور تو تکرار کا ماحول ہے جن شعبہ جات کو پہلے مہذب اور بااخلاق سمجھا جاتا تھا اب وہ شعبہ جات بھی اپنی بنیاد سے اکھڑ چکے ہیں جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیتا ہے ناکام خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے سابقہ حکومتوں کے دور اقتدار میں 50 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی کا بوجھ اٹھا کر جی رہے تھے اور اب ستم بالائے ستم ناقابل برداشت ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری بلوں نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور نئے پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کی 70 فیصد سے زائد آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے اس وقت عوام کو مہنگائی کی فکر ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کو لاک ڈاون کے نفاذ کی فکر دامن گیر ہے پاکستانی قوم مہنگائی کے اور امت مسلمہ اس وقت جن حالات سے دوچار ہے شاید ماضی میں مسلمانوں پر کبھی ایسے حالات نہیں آئے ہوں گے مسلم حکمرانوں کی تاریخ ساری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے یک جان ہو کر اپنی ثقافت، مذہب اور تمدن سے کام کیا تو کامیابی نے ان کے قدموں کو چوما اور انہوں نے ساری دنیا پر حکمرانی کی کسی بھی قوم کی فلاح صرف اور صرف انصاف کے راستے سے ہی ممکن ہے اور انصاف کے قیام کے لیے حق بات کہنے اور سننے کا حوصلہ ہونا بےحد ضروری ہے کیونکہ وہ قومیں بالآخر تباہی و بربادی کا شکار ہوجایا کرتی ہیں جہاں مکر، فریب، دھوکہ جھوٹ اور مغربی تہذیب کی یلغار ہو ایک مسلمان کے لیے نہ صرف انصاف کا قیام معاشرے کی بقاء کا مسئلہ ہے بلکہ یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے حق کی جستجو کرنا حق بات کہنا حق بات سننا اور حق بات کی خاطر ڈٹ جانا ایک مسلمان حکمران اور عوام کی اولین ذمہ داری ہے جس کا وہ اپنے مالک دو جہاں اللہ تبارک و تعالی کے سامنے جواب دہ ہے میرے دماغ کے مختلف گوشوں میں روزانہ بہت سے خیالات، احساسات اور مشاہدات محفوظ ہوتے ہیں جن کے متعلق لکھنے کے لیے جب میں قلم اٹھاتا ہوں تو لکھ نہیں پاتا ہماری عوام کے بہت سے مسائل ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حق بات کہنے سننے اور لکھنے کے روادار نہیں ہم لوگ تحقیق اور علم کے نام سے بھاگتے ہیں، حقیقت کا ہر لفظ زہریلا نشتر بن کے قلب مجزون کو مجروح کر دیتا ہے الفاظ کا تانا بانا بن کے کچھ لکھنے بیٹھیں تو سر ندامت سے جھک جاتا ہے ان پریشان کن حالات میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے دامن کو ان آلودگیوں سے پاک کرنے کی بجاے اپنی بداعمالیوں کا نزلہ زمانے پہ گرا کے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتی ہے کہ زمانہ خراب ہے حالانکہ زمانے کو برا نہیں کہنا چاہیے محسن انسانیت، تمام جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے کہ " زمانے کو گالی مت دو" عصر حاضر کا بغور مطالعہ کیا جائے اور امت مسلمہ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دور حاضر، دور جاہلیت،دور مظالم، فرعونوں اور نمرودوں کے دور سے بھی چند قدم آگے نکل گیا ہے

یہ بھی پڑھیں: بدقسمت نذیراں

دریائے زندگی اس وقت طغیانی ہر ہے عالم انسانی کے بیشتر حصوں میں انسانی عظمت، آدمیت،شرافت،اخلاق اور قانون عنقا بن چکے ہیں،ہماری پارلیمنٹیں، اسمبلیاں، حکومتوں کے سکرٹریٹ، وزارت خانے، عدلیہ کے ایوان، وکالت خانے،ہرنٹ و الیکٹرونک میڈیا، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے سمیت سب کے سب ادارے پھوڑے ہیں دوسری جانب اگر بات کی جائے مہنگائی کی تو واقعی اس بات میں شک نہیں کہ اس صورتحال نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے حکومتی پالیسیوں نے عدم استحکام کو فروغ دیا ہے غربت، بھوک، بیماریوں، لاقانونیت، ناانصافی کے ذمے دار موجودہ حکمران طبقہ ہی ہے غریب کے لیے روٹی اور کپڑا ایک خواب بن کر رہے گیا ہے موجودہ نااہل حکمران جماعت نے ملک بھر کی عوام کو سہنری خواب دیکھا کر مہنگائی اور بدیانتی کے سواء کچھ نہیں دیا آئی ایم ایف کے اشاروں پر حکومت کرنے والے حکمران آئے دن بجلی، گیس،تیل اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ کرکے عوامی مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے والا خواب چھبیس لاکھ نوجوانوں کی بے روزگاری پر ختم ہوا ہے حکمران خدا کا خوف کریں جب سے پاکستان بناء ہے 1947ء سے لے کر آج تک اس ملک کے کل ملازمین کی تعداد ایک کروڑ تک نہ پہنچی ریاست مدینہ اور تبدیلی سرکار کا ہرفریب نعرہ لگا کر برسر اقتدار میں آنے کے بعد غریب مکاو پالیسی پر عملدرامد شروع کر دیا ہے،وطن عزیز پاکستان اس وقت تاریخی انتشار، لاقانونیت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عفریت کے دور سے گزر رہا ہے پاکستان سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع رحیم یارخان میں بھی آٹے کی قیمت میں معمولی کمی کے بعد ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوگیا ہے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ضلع بھر میں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریب عوام کو چکرا کر رکھ دیا ہے جہاں آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے وہاں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے دوسری جانب سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بھی بدستور اضافہ جاری ہے ضلع بھر میں سبزیاں اور پھل دیگر صوبوں سے آرہے ہیں جس کی وجہ سے سبزیاں اور پھل مہنگےہوچکے ہیں تاہم اس بابت ضلعی انتظامیہ مہنگائی کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور تمام مہنگائی کا بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا گیا ہے سبزیاں، بجلی اور گئیس مہنگی ہونے سے گھریلو بجٹ شدید متاثر ہوچکا ہے
وزیراعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہونے کے باوجود ضلع رحیم یارخان کی قسمت نہ بدل سکی اور نہ ہی اس علاقے کی محرومی و پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اور پالیسیاں بنائی جا سکیں، ضلع بھر میں بے روزگاری، مہنگائی، اور معاشی بحران گزشتہ تین سالوں سے شدت اختیار کرچکا ہے رہی سہی کسر لاک ڈاون اور کورونا وائرس کی وباء نے پوری کر دی ہے کرونا وائرس کے باعث سکولوں کی بندش کی وجہ سے نظام تعلیم پستی کی طرف گامزن ہوچکا ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ ہونے کے باعث غریب تو غریب، لکھاری حضرات اور سفید پوش طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا ہے کاروباری بحران نے تاجر برادری کو بھی شدید مالی مشکلات کا شکار کردیا ہےآج حکمران طبقے کی سب سے اہم ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اسلام کے سہنری اور روشن تعلیمات کے سائے میں دین، ملک و ملت کی ترقی کی منزل کی طرف برق رفتاری سے سفر کریں اور خوشحال پاکستان بنانے کے لیے اچھے منصوبوں کے ساتھ ساتھ خوردونوش اشیائے کی قیمتوں میں کمی لائیں تاکہ غریب آدمی مستفید ہوسکیں نااہل حکمرانوں کی اسلام دشمن پالیسیوں نے 22کروڑ عوام کو مضطرب کر رکھا ہے ملک کو اس گرداب و بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی و مذہبی قیادت ہی آخری امید ہے
سچی بات

 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent