Ticker

6/recent/ticker-posts

Police Sub-Inspector Who is responsible for merry rose suicide?

Police Sub-Inspector Who is responsible for merry rose suicide?

Columnist and senior journalist Jam MD Gaanga


Jam M D Gaanga

On March 12, Meri Roz, a resident of Canal Park, Rahim Yar Khan, committed suicide by consuming wheat pills, etc. Unless and until our country and society has an impartial investigation and permanent and solid inquiries about all kinds of issues, crimes, happenings and incidents, then neither our administration nor the authorities have public issues. Cannot be resolved in an accurate and sustainable manner nor can such tragic and tragic events be prevented
Sub-Inspector Meri Roz Kay of Punjab Police belonging to the Christian community has been informed that she was an honest, courageous and hard working investigating officer. Circle Rahim Yar Khan was conducting investigative services of cases related to women's affairs. Punjab Police, especially the problems and difficulties of police stations and investigating officers. This is the biggest and most basic reason why financial corruption from the police cannot be eliminated or reduced. It is a separate and long topic in itself. Dreaming of is like living in the paradise of idiots we all have to consider sympathetically why Punjab Police is so dirty or why it is called so dirty they are also our brother and part of this society this is my today Come back to us day by day Troubled, fed up with Kuft, why did this brave girl finally decide to take this extreme step? The police officers have fulfilled their national and professional responsibilities by covering up the incident by talking in two sentences. Rose was disturbed by the domestic situation and committed suicide

Dear Readers, Today we live in a society where merit, justice and true sense of the word have to be sought by the lamp. No one has time to know the full details of any incident or case. This is the tragedy due to which we are not able to overcome the problems. Now let's talk about a corner of my daily home life. Rose married one of her badge mates Dilawar Masih in 2014. They have two daughters of three and four years. Dilawar Masih is serving in Special Branch Lahore. That under the Wadlock policy, transfer to Lahore or quit your job and come to Lahore. Applied to DPO Rahim Yar Khan Muhammad Ali Zia for long leave which was rejected. I would like to share a few words and phrases of the conversation that took place in front of the officers before his suicide, after thanking Azizullah Khan.

"Sir, I have two young daughters, four years old and three years old. My husband is a sub-inspector in the Special Branch Police. His posting is in Lahore. I have not taken any leave in the last two years. My home life has been ruined. An application has also been made under the lock policy. I want to transfer to Lahore. I will be given eight months leave. "
These are the words spoken by Lady Sub-Inspector Meri Rose on March 12 in DPO Rahim Yar Khan's Ardal Room.
I can't give discounted leave. Go to work. There is already a shortage of personnel in the district.

My Rose tried to open her mouth to say something but her voice got stuck in her throat. Hello in front. Back. She saluted with her hands, leaned back and came out of the master's office with heavy steps. She did not know what to do and finally she decided to kill herself.
How long will we continue to bury and bury such everyday events that have labeled the deterioration of the domestic situation? How long will we, instead of realizing our responsibilities, blame the system and put rubble on it? We will continue to understand each other's collective and individual problems and the thought of solving them, when and how the passion will be awakened. The only reason for the suicide was domestic circumstances. Even those who did not exchange it under the government's wadlock policy are not responsible for this suicide. The above mentioned responsible officers are not responsible to the officers when the sub-inspector of my day put his domestic affairs and obligations before them and requested me to find a solution for my day to day affairs, whether individual or domestic. The police department and its chiefs must consider this It is a pity that an honest and hardworking subordinate lady police officer told you about her domestic compulsions and the real problem. Regular application for relief under the rule of law. The problem is not solved We have to find out the causes and reasons for them and find a solution. Ding tapao time laghao policies are causing social and societal harm. Along with sophisticated check-up, we have to adopt social check-up policy. They are part of the cause of death. When and who will get rid of it?

DPO Rahim Yar Khan Now you tell me what will happen to the work pressure. The work will be done and will continue to be done. Someone else will work instead of my day. After my daily suicide, we have come to know that in our institutions. Those who work hard and honestly are not punished in this direct way. Peace be upon you. Sorry, but the truth is that your "no" has become a coffin for my day.

Merry Rose File Photo

پولیس سب انسپکٹر میری روز کی خود کشی ذمہ دار کون؟

کالم نگار و سینئر صحافی جام ایم ڈی گانگا


12 مارچ کو کینال پارک رحیم یارخان کی رہائشی میری روز نے گندم میں رکھنے والی دوائی گولیاں وغیرہ کھا کر خود کشی کر لی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خود کشی کے محرکات، اسباب اور وجوہات کیا ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے مختلف قسم کے مسائل، جرائم، پیش آنے والے معاملات، وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں جب تک ہمارے ملک اور معاشرے میں غیرجانبدارانہ تحقیقات اور مستقل و ٹھوس قسم کی انکوائریز کی بنیاد نہیں رکھی جاتی ہے نہ تو ہماری انتظامیہ اور ارباب اختیار عوامی مسائل درست و پائیدار طریقے سے حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس قسم کے دلخراش اور افسوسناک واقعقات کو روکا جا سکتا ہے 
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی پنجاب پولیس کی سب انسکپٹر میری روز کے کے بارے میں یہ معلومات ملی ہیں کہ وہ ایک دیانتدار، جرات مند اور محنت سے کام کرنے والی تفتیشی آفیسر تھیں تھانہ سٹی اے ڈویژن رحیم یارخان میں تعینات سب انسپکٹر میری روز سٹی سرکل رحیم یارخان میں خواتین کے معاملات سے متعلقہ کیسز کی تفتیشی خدمات سرانجام دے رہی تھیں پنجاب پولیس خاص طور پر تھانوں اور تفیتیشی آفیسران کے مسائل و مشکلات کے بارے میں ارباب اختیار کچھ جاننا نہیں چاہتے یا جانتے ہوئے بھی حل نہیں کرنا چاہتے یا حل نہیں کر پاتے ہیں یہی وہ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہے پولیس سے مالی کرپشن کے ختم یا کم نہ ہو سکنے کی  بذات خود ایک علیحدہ اور طویل ٹاپک ہے کانسٹیبلری کے مسائل حل کیے بغیر پولیس سے اچھے اور مثبت رزلٹ کی توقع رکھنا اور بہتر رویوں کے خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہی ہوگا ہم سب کو اس پر ہمدردانہ غور کرنا ہوگا کہ پنجاب پولیس اتنی گندی کیوں ہے یا اسے اتنا گندا کیوں کہا جاتا ہے آخر وہ بھی ہمارے بھائی اور اس معاشرے کا حصہ ہیں یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے واپس آتے ہیں ہم میری روز کی طرف روز روز کی جھنجھٹ، پریشانی، کوفت سے تنگ آ کر بلآخر اس بہادر لڑکی نے یہ انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیونکر کیا کہنے کو تو پولیس آفیسران نے دو جملوں میں بات کرکے واقعہ پر لیپا دے کر اپنی قومی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کر دیا ہے کہ میری روز گھریلو حالات کی وجہ سے پریشان تھی اور خود کشی کر لی ہے


محترم قارئین کرام، ہم آجکل ایک ایسے معاشرے میں رہ ریے ہیں جہاں پر میرٹ، انصاف اور حقیقی احساس کو چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا ہے ترقی کی اندھی دوڑ، نمود و نمائش اور اس مشینی دور نے انسانوں کو بھی محض ایک مشین بنا کے رکھ دیا ہے کوئی واقعہ اور معاملہ ہو جائے کسی کے پاس مکمل تفصیلات جاننے کے لیے بھی ٹائم نہیں یہی وہ المیہ ہے جس کی وجہ سے ہم مسائل پر قابو نہیں پا رہے اب آتے ہیں میری روز کی گھریلو زندگی کے ایک گوشہ پر بات کرتے ہیں میری روز نے 2014ء میں اپنے ایک بیج میٹ دلاور مسیح سے لو میرج کی ان دونوں کی تین اور چار سال کی دو بچیاں ہیں دلاور مسیح سپیشل برانچ لاہور میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا کچھ عرصہ سے میاں بیوی میں اختلافات چل رہے تھے شوہر دلاور بضد تھا کہ ویڈ لاک پالیسی کے تحت اپنا، تبادلہ لاہور کروا لیں یا پھر ملازمت چھوڑ دیں اور لاہور آ جائیں حکومت کی اس پالیسی کے تحت میری روز نے اپنے متعلقہ آفیسران کو تبادلے کی درخواست بھی دے رکھی تھی مگر شنوائی نہ ہوئی جس کے بعد میری روز نے طویل چھٹی کے لیے ڈی پی او رحیم یارخان محمد علی ضیاء کو درخواست دی جو نامنظور کر دی گئی اب میں آپ کے ساتھ میری روز کی خود کشی سے قبل آفیسران کے سامنے ہونے والی گفتگو کے چند جملے اور الفاظ عزیز اللہ خان سے شکریہ کے بعد شیئر کرنا چاہتا ہوں 

یہ بھی پڑھیں :  ہجرت کی کہانی دادا جان کی زبانی

"سر میری چھوٹی چھوٹی چار سال اور تین سال کی دو بچیاں ہیں میرے شوہر  سپیشل برانچ پولیس میں سب انسپکٹر ہیں اُن کی تعیناتی لاہور میں ہے میں نے پچھلے دو سال میں کوئی رخصت نہیں لی ہے سر میری گھریلو زندگی برباد ہوگئی ہے میں نے ویڈ لاک پالیسی کے تحت درخواست بھی دی ہوئی ہے میں نے اپنا تبادلہ لاہور کروانا ہے مجھے آٹھ ماہ کی رخصت رعایتی دی جائے"
یہ ہیں وہ الفاظ جو لیڈی سب انسپکٹر میری روز نے 12 مارچ کو ڈی پی او رحیم یار خان کے اردل روم میں پیش ہو کر کہے تھے 
میں رخصت رعایتی نہیں دے سکتا جاؤ نوکری کرو ضلع میں نفری کی پہلے ہی کمی ہے ڈی پی او رحیم یار خان نے سخت لہجہ میں جواب دیا اور میری روزی کی درخوست پر "نہیں" لکھ کر ساتھ کھڑے ریڈر کے حوالے کر دی 
میری روز  نے کُچھ کہنے کے لیے مُنہ کھولنے کی کوشش کی مگر اُس کی آواز گلے میں پھنس گئی سامنے سلام پیچھے پھر جلدی چل اردل روم کروانے والے لائن آفیسر کی آواز میری روز کو کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی اُس نے ڈی پی او کو کانپتے ہاتھوں سے سیلوٹ کیا پیچھے مڑی اور بوجھل قدموں سے صاحب کے دفتر سے باہر آگئی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے اور آخرکار اُس نے خود کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا
آخر ہم کب تک گھریلو حالات کی خرابی کا لیبل لگا کر آئے روز ہونے والے ایسے واقعات پر مٹی ڈالتے اور دفن کرتے رہیں گے آخر ہم کب تک اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی بجائے سسٹم اور نظام کو موردِالزام ٹھہرا کر ملبہ اس پر ڈالتے رہیں گے ہم میں ایک دوسرے کے اجتماعی اور انفرادی مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی سوچ، جذبہ کب اور کس طرح بیدار ہوگا آخر ہم اپنی کمی کوتاہیوں، بے حسی وغیرہ کو کب تک تقدیر کے وسیع میدان پھنکتے رہیں گے کیا میری روز کی خود کشی کی وجہ صرف گھریلو حالات تھے حکومت کی ویڈ لاک پالیسی کے تحت اُس کا تبادلہ نہ کرنے والے بھی اس خود کشی کے ذمہ دار نہیں ہیں کام کے پریشر کی وجہ سے میری روز کی طویل رخصت کی درخواست نامنظور کرنے والے ڈی پی او بھی ذمہ دار نہیں ہیں مذکورہ بالا ذمہ داران آفیسران کو جب ماتحت سب انسپکٹر میری روز نے اپنے گھریلو معاملات اور مجبوریاں ان کے سامنے رکھیں اور درخواست دی میری روز کے معاملات انفرادی اور گھریلو سہی کیا ان کا کوئی حل نکالنا آفیسران کی قانونی نہ سہی اخلاقی ذمہ داری بھی نہیں بنتی تھی پولیس کے ادارے کو اور اس کے سربراہان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئیے ارباب اختیار آفیسران افسوس صد افسوس کہ ایک دیانتدار اور محنتی ماتحت لیڈی پولیس ملازم نے آپ کو اپنی گھریلو مجبوریاں اور حقیقی مسئلہ بیان کیا قاعدہ قانون کے تحت ریلیف کی باقاعدہ درخواست گزاری آپ محض اپنے روایتی مشینی کردار کی وجہ سے بے چاری کا وہ معمولی مسئلہ بھی حل نہ کر سکے تبادلے ملازمت کا حصہ ہیں چھٹی کا بھی ملازمین کو حق حاصل ہے اس کے بعد احساس اور ہمدردی بھی یقینا کسی اچھی چیز کو کہتے ہیں کچھ عرصہ سے پولیس ملازمین میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ان کی وجوہات اور اسباب معلوم کرکے ان کا حل نکالنا ہوگا ڈنگ ٹپاؤ وقت لنگھاؤ پالیسیاں سماجی و معاشرتی  نقصان کا باعث ہیں نفیساتی چیک اپ کے ساتھ ساتھ سماجی چیک اپ پالیسی اختیار کرنی پڑے گی مذکورہ بالا سوچ اور رویہ جو ان ڈائریکٹ میری روز کی خود کشی کی وجوہات کا حصہ ہیں اس سے کب اور کون جان چھڑوائے گا؟ 

 یہ بھی پڑھیں :   رحیم یارخان پولیس نے خاتون پر تیزاب پھینکنے والا ملزم گرفتار کرلیا 

ڈی پی او رحیم یارخان اب آپ ہی بتائیں کہ کام کے پریشر کا کیا بنے گا کام تو ہوگا اور ہوتا رہے گا میری روز کی جگہ اب کوئی دوسرا آدمی کام کرے گا میری روز کی خود کشی کے بعد ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے اداروں میں محنت اور دیانتداری سے کام کرنے والوں کو ان ڈائریکٹ سہی جزا نہیں سزا ملا کرتی ہے جان کی امان پاؤں تو معذرت کے ساتھ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی "نہیں" میری روز کے لیے تابوت بن گئی ہے

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent