Ticker

6/recent/ticker-posts

پاکستانی اُردو ناولٹ کی مختصر ترین تاریخ

The shortest history of Pakistani Urdu Novel

The shortest history of Pakistani Urdu Novel

ڈاکٹر عرفان احمد خان

03004191687

نئی مسلم ریاست پاکستان کا قیام ۱۹۴۷ء میں عمل میں آیا مگر یہ تباہی او ربربادی کا دور تھا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ ایسے عالم میں لکھنے پڑھنے کا کسے ہوش تھا۔ پاکستانی اُردو ناولٹ کے ابتدائی سفر کا آغاز جون ۱۹۴۸ء میں ’’یاخدا‘‘ کے شائع ہونے سے ہوا قدرت اللہ شہاب ایک منجھے ہوئے ادیب تھے انہوں نے پاکستانی اُردو ناولٹ کو ایک شاندار آغاز فراہم کیا اُن کے اس ناولٹ کو سمجھنے میں وقت لگا فوری طور پر اس کے حوالے سے قارئین اور نقاد دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ناولٹ اپنی اہمیت اور وسعت ثابت کرتا چلا گیا اور پھر اسے سمجھنے اور پسند کرنے والے اتنی اکثریت اختیار کر گئے کہ اس پر تنقید کرنے والے کہیں گم ہو کر رہ گئے۔ یوں تو اس کا موضوع ’’فسادات‘‘ ہے مگر اس میں اعلیٰ انسانی اقدار کے مٹ جانے کا نوحہ بین السطور بیان کیا گیا ہے۔ انسان لالچ، حرص او رہوس کے زیر اثر کیا کچھ کر گزرتا ہے یہ اس ناولٹ میں بڑے دردناک انداز میں دکھایا گیا ہے اس ناولٹ کا مرکزی خیال اُن آنکھوں دیکھے واقعات سے اخذ کیا گیا ہے جو مصنف کو مجبوری کے عالم میں دُکھی دل کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ اصل میں انسانیت کا نوحہ ہے انسان، انسان کا دشمن کیسے بن جاتا ہے اور کس حد تک گر جاتا ہے یہی اس ناولٹ کی کہانی ہے
عزیز احمد ’’ہوس‘‘ ناولٹ میں ایک آزاد خیال مصور کی کہانی بیان کرتے ہیں جو آرٹ میں تعلیم کے سلسلے میں اپنے ماموں کے گھرقیام پذیر ہے۔ اس دوران اُس کی آزاد خیالی جو رنگ لاتی ہے وہی اس ناولٹ کو اس کے متوقع انجام کی طرف لے جاتی ہے۔ ابراہیم جلیس نے ’’چالیس کروڑ بھکاری‘‘ میں بات تو ہندوستان کی بیان کی ہے مگر اسے پاکستان پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے حالات قریب قریب ایک سے ہیں۔ اس میں ایک امریکن ارب پتی جوڑے کی کہانی ہے جو ہندوستان کی سیر کو آتا ہے مگر یہاں کی غربت اور اس سے پیدا شدہ مسائل دیکھ کر افسردہ ہو جاتا ہے خاطر غزنوی کی یوں تو پہچان ایک بڑے شاعر کی ہے مگر انہوں نے یہ ناولٹ ’’پھول اور پتھر‘‘ بھی خوب لکھا ہے۔ قبائلی علاقے کے رسم و رواج اور وہاں رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل یہ ایک سادہ مگر دلکش تحریر ہے اے حمید کا قلم جادوئی ہے وہ رومانویت کے تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والے بااثر ادیب ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ اُن کی دیگر تحریروں کی طرح پُرکشش اور خوبصورت اختتام کی خوبی لئے ہوئے ہے

یہ بھی پڑھیں : اسلامی تاریخی قلعہ مئو مبارک

غلام عباس کا تعلق لاہور سے ہے مگر وہ کچھ عرصہ برطانیہ میں بھی رہے انہوں نے اس ناولٹ میں اپنے ماضی کو یاد کیا ہے اور انہیں ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ جانے کیا کیا کچھ یاد دلاتا ہے ماضی کی یاد جہاں انسان کو خوشی دیتی ہے وہیں دُکھی بھی کر دیتی ہے انہی ملے جلے جذبات سے لبریز یہ ناولٹ قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ سعادت حسن منٹو اُردو ادب کے سب سے بڑا افسانہ نگارہیں خاکہ نگاری میں بھی اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ ’’بغیر عنوان کے‘‘ اُن کی واحد طویل تحریر ہے۔ اُن کا یہ ناولٹ، ناولٹ کی تاریخ کا حصہ تو ضرور ہے مگر اسے یادگار تحریر نہیں کہا جاسکتا 
اشفاق احمد نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری ہی سے کیا تھا اور ابتداء ہی میں ’’گڈریا‘‘ لکھ کر اپنا لوہا منوا لیا تھا مگر بعد میں وہ ریڈیو اور ٹی وی کے ہو کر رہ گئے۔ اس کے باوجود اُن کے ادبی کارناموں کا جہاں بھی تذکرہ ہوا ’’گڈریا‘‘ سرفہرست رہا۔ یہ بھی حقیقت سے قریب ترین کہانی ہے اور یادگار ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا ’’رئیس خانہ‘‘ انسانی نفسیات، امیری غریبی کا کھیل اور مجبوریاں یعنی بہت کچھ لئے ہوئے ہے۔ یہ ناولٹ پہلی سطر سے اپنے اختتام تک قاری کو ایسے اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ وہ اسے پڑھنے کے بعد تسلیم کر لیتا ہے کہ اُس نے بہت بڑے ادیب کو پڑھا ہے
اے حمید نے ناولٹ ’’برفباری کی رات‘‘ بڑے سیدھے سبھاو سے لاہور سے چند دوستوں کے مری تک کے سفر پر لکھا ہے۔ خوبصورت چونکا دینے والے جملے اور چھوٹے چھوٹے واقعات ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں مگر اس کا اختتام بہت ہی متاثر کن ہے اور ایک بُرے انسان کے اندر چھپے اچھے انسان کی عظمت کو سامنے لاتا ہے۔ شفیق الرحمن کا اُسلوب لطیف طنز و مزاح سے لبریز ہوتا ہے اور یہ اُن کی تمام تحریروں کا خاصہ رہا ہے۔ ’’برساتی‘‘ اُن کے یورپ میں زمانۂ طالب علمی میں گزارے ہوئے دنوں کی سفرنامے کے انداز میں ایک کہانی ہے جو معلوماتی بھی ہے اور اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد بھی ہے رحمان مذنب کو ہم اُردو ادب میں طوائف کے موضوع پر اتھارٹی کہہ سکتے ہیں۔ اگر لاہور اور طوائف کا ذکر کسی نے بھرپور انداز میں پڑھنا ہو تو وہ اُسے رحمان مذنب کی تحریروں میں ملے گا۔ ’’باسی گلی‘‘ ایک علامتی نام ہے یہ طوائف اور طوائفیت سے منسلک تمام لوگوں کے احوال کو سامنے لاتا ہے جو رکھ رکھائو اور تہذیبی عناصر ہمیں اُس دور اور رحمان مذنب کے اُسلوب میں ملتے ہیں وہ ہمیں اُن کی تحریروں کا اسیر بنا کے رکھ دیتے ہیں۔ انتظار حسین کا ناولٹ ’’اللہ کے نام پر‘‘ یوں تو اُن کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتا ہے مگر اپنے اندر وہ تمام اجزائے ترکیبی لئے ہوئے ہے جو ایک بڑے ادیب کی تحریر کو شناخت اور اعتبار عطا کرتے ہیں 
جمیلہ ہاشمی، بہاول پور کے علاقے کی رہنے والی تھیں اور ’’روہی‘‘ صحرائی علاقے کا خوبصورت استعارہ ہے جمیلہ ہاشمی کی وجہ شہرت تو آدم جی ایوارڈ یافتہ ’’تلاشِ بہاراں‘‘ ہے مگر اُن کا یہ ناولٹ بھی بہت معیاری کاوش ہے شوکت صدیقی اُردو ادب کے بہت بڑے افسانہ نگار تھے اور ناول نگار تو سب سے بڑے تھے۔ اُن کا ناولٹ ’’وہ اور اُس کا سایہ‘‘ ناولٹ نمبر ہی میں شائع ہوا۔ وہ مزدور اور غریب کی بات ہر جگہ کرتے ہیں اور یہی اُن کی پہچان اور انفرادیت ہے۔ مجنوں گورکھپوری بھی رومانوی تحریریں لکھنے والوں میں بڑا نام اور مقام رکھتے تھے۔ اُن کا ناولٹ ’’سوگوار شباب‘‘ انسانی جذبات، اُن کے تقاضوں او راثرات کو زیرِ بحث لاتا ہے اور آغاز سے انجام تک بڑی خوبی کے ساتھ چلتا ہے پاکستانی اُردو ناولٹ کے وسطی دور کا آغاز ظہیر ریحان /ایاز عصمی کے مشترکہ طور لکھے گئے ناولٹ ’’آخر کب تک‘‘ سے ہوتا ہے جو ’’سیپ‘‘ کراچی کے ’’ناولٹ نمبر‘‘ کے لئے تحریر کیا گیا۔ یہ ایک علامتی اور نفسیاتی سی تحریر ہے جو ناولٹ کی کروٹ اور ارتقاء کا پتہ دیتی ہے۔ پاکستانی اُردو ادب کے سب سے بڑے ناولٹ نگار رحمان مذنب ہی ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’کوہسار زادے‘‘ قبائلی علاقے کے حالات و واقعات سے اپنا منظر نامہ تشکیل کرتا اور کہانی اخذ کرتا ہے اس میں انہوں نے طوائف سے ہٹ کر لکھنے کا تجربہ بھی کیا ہے جو اپنی جگہ کامیاب ہے 
عزیز احمد پر مغربی تہذیبی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بھی رہے اس لئے اُن کا ویژن عام ادیبوں سے بہت ہٹ کر ہے۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘ بھی اُن کے مخصوص اُسلوب کا پتہ دیتا ہے او رقاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس ناولٹ ’’زرینہ اور ہاشم‘‘ میں رحمان مذنب نے طوائف سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ اور کرافٹ مل کر اُن کی ہر تحریر کو اہم بنا دیتے ہیں۔ اُن کا قلم بہت محتاط ہے مگر قاری کے ذہن کی ورزش کروانا کبھی نہیں بھولتا نام یعنی ’’بدر بہادر ڈکیت‘‘ سے اس ناولٹ کی اہمیت اور خوبی واضح نہیں ہوتی مگر مطالعہ اسے ایک بڑا ناولٹ ثابت کرتا ہے۔ بالخصوص اس کا ڈرامائی انجام تو قاری سے بہت داد سمیٹتا ہے۔ انور سجاد نے علامتی افسانے اور کہانی کو بڑا فروغ دیا۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جنم روپ‘‘ بھی نفسیاتی اور علامتی ہے۔ کہانی کے بغیر اتنا بڑا ناولٹ لکھ جانا بذاتِ خود کمال کی بات ہے۔ اس ناولٹ کے کئی ٹکڑے تو بڑے خوبصورت ہیں بشریٰ رحمن کے اس ناولٹ ’’پے ان گیسٹ‘‘ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے ہیرو ہیروئن چندے آفتاب ،چندے ماہتاب نہیں ہیں۔ اُن کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔ یہ ناولٹ بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا خوب سے خوب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سلمیٰ یاسمین نجمی گو اُردو ادب کا معروف نام نہیں مگر اس ناولٹ ’’ہم نفس‘‘ کی حد تک وہ عظیم ادیبوں کی صف میں کھڑی ضرور نظر آتی ہیں یہ افغانستان میں روس کی فوجی آمد کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ایک تحقیقی ناولٹ بھی ہے اور کہانی کی سطح پر دلچسپ بھی احمد عقیل روبی نے یہ علامتی انداز کا ناولٹ ’’چوتھی دنیا‘‘ لکھا ہے جس میں انہوں نے جانوروں کی زبان سے انسانوں کے ساتھ مکالمہ کیا ہے بالخصوص گدھے کی زبان میں جسے ہم کم عقل تصور کرتے ہیں۔ یہ فکری دانش کے کئی پہلو لئے ہوئے ہے
 کسی تحریر میں علمیت ٹپکتی دیکھنی ہو تو وہ ’’غالب اور ڈومنی‘‘ پڑھ لے۔ خود مرزا غالب ، خان فضل الرحمن خاں کی تحریر پڑھتے تو کھلے دل سے داد دیتے۔ غالب کو اُس کے عہد سمیت زندہ کر دینا خان صاحب کا کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر جو بحیثیت نقاد زیادہ جانے جاتے ہیں انہوں نے یہ ناولٹ ’’ضبط کی دیوار‘‘ ایک نوجوان کی جنسی اور نفسیاتی کیفیات کے حوالے سے لکھا ہے۔ جس کا واسطہ ایک ایسی طوائف سے پڑتا ہے جس کے اندر مامتا تڑپ رہی ہے۔ زاہدہ حنا کی پہچان تو کالم نگاری ہے مگر اس ناولٹ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ میں انہوں نے خود کو ایک بڑی فکشن رائٹر کے طور پر بھی منوا لیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو وہ قرۃ العین حیدر جونیئر معلوم ہوتی ہیں اس ناولٹ کی خوبصورتی اور خوبی پارسی رسم و رواج پر مصنفہ کی تحقیق او رمشاہدہ ہے جو اس ناولٹ کو انفرادیت عطا کرتی ہے غافر شہزاد افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں اس ناولٹ ’’لوک شاہی‘‘ میں انہوں نے گاوں سے شہر آنے والے ایک نوجوان کے جذبات و احساسات کی کہانی بیان کی ہے جس کا جنون شہر کی چکا چوند یعنی روشنی ہے۔ عمیرہ احمد بنیادی طور پر ناول نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’میری ذات ذرہ بے نشاں‘‘ اُن کی ابتدائی تحریروں میں سے ایک ہے یوں تو یہ ایک روایتی کہانی ہے مگر اس میں نیا پن، نئے اسلوب سے بڑی فنکاری کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے
 پاکستانی اُردو ناولٹ کو اکیسویں صدی میں لے کر آتے ہیں طاہر جاوید مغل اپنے ناولٹ ’’جذبۂ دروں‘‘ کے ساتھ، جو ڈائجسٹوں کے مشہور ترین ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ایک رومانٹک ناولٹ ہے جس میں مصنف اپنے دل کا حال کھل کر اپنی محبوبہ سے بیان نہیں کر پاتا اورنتیجے میں اکیلا رہ جاتا ہے آغا گل نے بلوچستان میں افسانے کے حوالے سے بڑی شہرت پائی اپنے اس ناولٹ ’’بابو‘‘ میں انہوں نے ایک نوجوان کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے جو زندگی میں نت نئے تجربات کر کے زندگی کو اپنے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مرزا حامد بیگ کی کہانی ’’تار پر چلنے والی‘‘ اصل میں ایک علامتی کہانی ہے اور مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے حقیقت میں کسی تار پر چلنے والی کا کوئی وجود نہیں۔ مگر کرافٹ کی خوبی تو اس کہانی میں بھرپور طریقے سے اعلیٰ نثر کے ساتھ موجود ہے بانو قدسیہ اُردو فکشن کا بہت بڑا نام ہیں ناولٹ ’’ایک دن‘‘ ٹرین کے ایک سفر سے شروع ہوتا ہے اور ٹرین ہی پر ختم ہوتا ہے اس سفر کے دوران جو ،جو واقعات رونما ہوتے ہیں یا کردار جہاں قیام کرتے ہیں وہی اصل میں کہانی ہے آزاد مہدی شاعرانہ نثر لکھتے ہیں علامتی بات کرتے ہیں۔ اُن کا ناولٹ : ’’اُس مسافر خانے میں‘‘ یوں تو ریلوے سٹیشن، ویٹنگ روم، پلیٹ فارم اور مسافروں سے متعلق نظر آتا ہے مگر اس میں پورا معاشرہ، اُس کے دُکھ اور مسائل در آئے ہیں۔ یہ جدید لب و لہجہ ابتداء میں نامانوس سا لگتا ہے مگر ایک وقت میں قاری کے دل کو چھونے میں کامیاب ہو جاتا ہے فرانسیسی نژاد ژولیاں نے اُردو زبان سیکھ کر ’’ساغر‘‘ جیسا خوبصورت ادبی شہ پارہ تخلیق کر ڈالا جو مشہور درویش شاعر ساغر صدیقی کی کہانی ہے ساغر صدیقی کے بارے میں اُن کی تحقیق اور پھر اُس کی فنکارانہ پیشکش دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اہم اور لائقِ داد ہیں عبداللہ حسین کا ناولٹ ’’رات‘‘ کراچی کا منظر نامہ لئے ہوئے ہے لو میرج کرنے والے دو یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی کہانی ہے جسے ایک تیسرا کردار جو یونیورسٹی میں تو شکست کھا گیا تھا یونین کے صدر کے مقابلے میں مگر یونیورسٹی سے باہر نکل کر کامیاب آدمی بن جاتا ہے یہ زندگی کے عروج و زوال کی تلخ کہانی ہے
علی عباس جلالپوری کی پہچان تو ایک مستند فلاسفر کی ہے جنہوں نے عالمی فلسفے اور فلسفیوں کو اچھی طرح سمجھا اور انہیں اُردو دان طبقے تک بہت سادہ طریقے سے منتقل کیا۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’پریم کا پنچھی پنکھ پسارے‘‘ رومانٹک او رتقسیم سے پہلے کی لبرل فضا سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان و بیان پر اُن کی مکمل گرفت بتاتی ہے کہ اگر وہ اس میدان کو بھی وقت دیتے تو بہ طور فکشن رائٹر بھی بڑا نام پاتے۔ ناولٹ ’’ہیلن آف ٹرائے‘‘ صادق حسین کے ضخیم افسانوی مجموعے کی دریافت ہے اس کا مرکزی کردار ایک امیر زادی ہے جو نفسیاتی عارضے کے باعث خود کو ہیلن آف ٹرائے سمجھنے لگتی ہے اُس کے گھر والے اُسے نارمل زندگی کی طرف لانا چاہتے ہیں وہ اتفاقیہ طور پر ایک نوجوان سے ملتی ہے جو اُسے نارمل کر دیتاہے ژولیاں نے اپنا دوسرا ناولٹ لکھنے کے لئے اُردو ادب کی ایک اور بڑی شخصیت میرا جی کو منتخب کیا میرا جی کا تعلق بھی ساغر صدیقی کی طرح لاہور سے تھا وہ ایک ہندو لڑکی میرا سین کے عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اُن کا نام ہی ’’میرا جی‘‘ پڑ گیا اور یہ عشق اُن کی باقی ماندہ تمام زندگی پر چھایا رہا۔ میرا جی کی شاعری اصل میں میراسین ہی کے لئے تھی۔ 
حُسن پرست اور ’’جنسی رجحان‘‘ تو وہ بچپن ہی سے رکھتے تھے انہوں نے آل انڈیا ریڈیو دِلّی میں ملازمت بھی کی اور وہاں بھی اعلیٰ ادبی کام کیا ژولیاں نے میرا جی کو بھی ہمارے سامنے زندہ سلامت لا کھڑا کیا ہے ڈاکٹر خالد سہیل یوں تو میڈیکل نفسیاتی ڈاکٹر ہیں مگر انہوں نے فکشن بھی لکھا ہے۔ اس ناولٹ ’’دریا کے اُس پار‘‘ میں انہوں نے کینیڈا میں ایک پاکستانی نژاد کو پیش آنے والے واقعات کے بارے میں لکھا ہے جو نفسیاتی مریض ہے اور ڈاکٹروں کی زیرِ ہدایت اُس کی نگرانی جاری ہے خالد علیم اُستاد شاعر کے طو رپر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ’’دائرے میں قدم‘‘ اُن کا سوانحی ناولٹ ہے جسے اُن کی حقیقت نگاری نے پُرتاثیر اور یادگار بنا دیا ہے ایک نوجوان کے زندگی کے بارے میں خواب، لااُبالی پن، زمانے کی بے رحمیاں اور پاکباز لوگوں کی پُرخلوص محبتیں، سبھی کچھ ہے اس خوبصورت ناولٹ کے اندر جو اپنے قاری کو آنکھ تک جھپکنے نہیں دیتا۔
اے حمید (۱۹۷۱ء) ’’میں خزاں میں آوں گا ‘‘ اس ناولٹ کی ہیروئین کا نام بھی رضیہ ہی ہے جس کا ہیرو ایک ستر سالہ بوڑھا پینٹر ہے جو خود کلامی کے انداز میں اپنا ماضی یاد کر رہا ہے ناولٹ کا آغاز اے۔ حمید کا مخصوص رومانوی انداز ہے جو کسی اور اُردو ادیب کے پاس نہیں۔
’’سبز میز اور تینوں کرسیاں دیوان خانے میں ڈال دی گئیں ان میں دو کھانا کھانے والی تھیں اور ایک آرام کرسی تھی جو ایک ہندو کے مکان سے نکلی تھی اس کی پشت پر سفید رنگ سے ’’منڈو رام بھڑوچہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بھائی صاحب نے اُسے چاقو سے کُھرچ کر وہاں اپنا نام یعنی غلام احمد الیکٹریشن لکھوا لیا تھا۔‘‘ پاکستان میں مہاجرین کی اکثریت نے یہی کیا جعلی کلیم بھرے، جائیداد اور مال و اسباب پر قابض ہوگئے اور نام کو ہندو سے بدل کر مسلمان کر لیا بس اتنی محنت کی نام بدلنے کی ’’سنت نگر‘‘ کو ’’سُنت نگر‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ’’کرشن نگر‘‘ کو ’’اسلام پورہ‘‘ کا نام دے دیا۔ نام بدل دینے سے انسان اور اُن کے مذہب بھی تبدیل ہوئے۔
’’میرے دالان میں قدم رکھنے سے پہلے آپو جی بھائی صاحب کے گوش گزار کر چکی تھی کہ وہ کام سے واپس لوٹتے ہوئے راشن کے دفتر سے پرانا راشن کارڈ تبدیل کرواتا آئے پہلے تو جیسے بھائی صاحب نے کچھ سُنا ہی نہیں تھا بڑے مزے سے پیڈلوں کو تیل دیتے اور انہیں ہاتھ کے جھٹکے سے زور زور سے گھماتے رہے پھر تیل کی پیک زمین پر رکھی او رچیتھڑے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے بولے : ’’اب کے راشن کاٹ میں دو نگ زیادہ لکھوائیں گے‘‘ آپو جی نے کہا : ’’ایسا نہ کرنا یہ بُری بات ہے کسی کو پتہ چل گیا تو مصیبت ہو جائے گی‘‘ بھائی صاحب نے زور سے کھنکھار کر تھوکا اور آستین سے منہ صاف کر کے بولے : ’’چیک کرنے والا اپنا آدمی ہے اُسے ابھی کل کمپنی کے سٹور سے سو واٹ کا بلب چُرا کر دیا ہے۔‘‘

اس اقتباس میں اُسی قبضہ گروپ کا احوال ہے جو اسلام کے نام پر آیا تھا راشن کارڈ گزرے وقتوں کا شناختی کارڈ ہوتا تھا اُس میں دو افراد کا جعلی اضافہ عوامی کرپشن کی علامت ہے کیونکہ اجناس کی قلت کے باعث راشن بندی تھی آٹا اور چینی راشن پر ملتی تھی اور فالتو ملنے والا راشن اوپن مارکیٹ میں زیادہ منافع لے کر بیچ دیا جاتا تھا۔ شر سے خیر کس طرح برآمد ہو سکتا ہے؟
پاکستان قوم ابھی تک اسی عذابِ مسلسل میں گرفتار ہے اور ذِلتوں کے مزید نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اے حمید کے اس ناولٹ کی ہیروئین کا نام بھی ’’رضیہ‘‘ ہے اور اُس نے بھی اپنے بالوں میں زرد گلاب ٹانک رکھا ہے لگتا ہے خود اے حمید اپنے پہلے ناولٹ کے اثر سے پوری طرح باہر نہیں نکلے کرداروں کے نام بھی ویسے ہی ہیں یا ملتے جلتے جیسے سعیدہ اور عابدہ۔

’’ایک طوطے ایسی ناک والے پتلے دبلے رشتہ دار رفوگر نے مکان کے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر اپنے ساتھی سے چہک کر بولا : ’’بس میت تیار ہے کاکا جی!‘‘ اُس کے ساتھی نے اطمینان کا سانس لیا اور منہ پر ہاتھ پھیر کر کلمے شریف کا وِرد شروع کر دیا مجھے رفوگر کی اس حرکت سے بڑا صدمہ ہوا اور مجھے بھی لگا جیسے یہی وہ لوگ ہیں جو شادی کی دعوتوں میں بھی اپنے اکتائے ہوئے بھوکے ساتھیوں کو خوشبخری سنایا کرتے ہیں : ’’بس کھانا تیار ہے کاکا جی۔‘‘ والد کی وفات کے بعد ہیرو یعنی پینٹر کی بہن عابدہ کی شادی ہو جاتی ہے رضیہ، عابدہ کی سہیلی تھی پھر رضیہ کا بھی گھر میں آناجانا بند ہو جاتا ہے ویسے بھی رضیہ سے پینٹر بابو کا یک طرفہ پیار تھا پھر رضیہ کی بھی شادی ہو جاتی ہے اور پینٹر اس صدمے سے کئی روز نڈھال رہتا ہے پینٹر کی بہن عابدہ اُسے بتاتی ہے کہ رضیہ اپنے خاوند سے بہت محبت کرتی ہے اور اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے پینٹر بھی خود غرض ہوکر سوچتا ہے کہ رضیہ کے گھر لڑائی جھگڑے ہوں اُس کا خاوند اُس سے نفرت کرے اور طلاق دے کر اُسے گھر بٹھا دے مگر یہ ایک سطحی انسان کی جذباتی سوچ ہے اور اس ناولٹ کا ہیرو پینٹر بابو ایک فنکار ہے یعنی ساری دنیا سے مختلف اور منفرد وہ ایسی سوچ کو جھٹک دیتا ہے پھر وہ اپنی اُداسی مٹانے کے لئے شہر شہر، ملک ملک پھرتا ہے اور اپنے ماضی کی یادوں سے دل بہلاتا ہے اور آخرکار ایک ہوٹل میں گمنامی کی موت مرجاتا ہے اس ناولٹ میں کہانی کی کمی ہے مگر لفاظی کی کوئی کمی نہیں اے حمید ڈراما رائٹر (ریڈیو، ٹی وی) بھی رہے ہیں اور صحافی بھی اُن کے لئے صفحے کالے کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں اسلوبیاتی سطح پر یہ ناولٹ خود اے حمید کے ناولٹ ’’زرد گلاب‘‘ کے اثر میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے اسے اے حمید کی طرف سے وہ توجہ نہیں ملی جس کا یہ حقدار تھا رومان اور رومانوی اثرات تو اس ناولٹ میں بھی ہیں مگر وحدت ِ تاثر سے محروم ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent