Ticker

6/recent/ticker-posts

وزیر اعلی حمزہ شہباز صاحب! ترقی کا سفر ٹیل سے شروع کریں

Chief Minister Hamza Shahbaz Sahib! Start the journey of development from the tail

Chief Minister Hamza Shahbaz Sahib! Start the journey of development from the tail

تحریر جام ایم ڈی گانگا

ضلع رحیم یارخان سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سردار ممتاز چانگ سندھ سرائیکستان بارڈر صوبے کے ٹیل پر واقع آخری حلقے سے پہلی بار منتخب ہوئے سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے دور میں بھی وہ اور ان کے دیگر ساتھی ایم پی ایز مخدمزادہ عثمان محمود اور سید حسن مرتضی عوامی مسائل پر ہمیشہ کھل کر بولتے رہے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ ممتاز چانگ کا نام اکثر پنجاب اسمبلی میں اظہار خیال کرنے والوں کی لسٹ میں سے کاٹ دیا جاتا تھا کیونکہ یہ اپنے پسماندہ ترین حلقے اور عام لوگوں کے بات کرتا ہے جو حکمرانوں اور رولر کلاس سیاسی فیملیز کو اچھی نہیں لگتی ماضی میں ایک بار تو ممتاز چانگ احتجاجا اسمبلی کی سیڑھیوں کے فرش پر بیٹھ گئے تھے اب نئے وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کا قانونی جنگجو اور پنجابی کھڑاک کا دور ہے جس میں پیپلز پارٹی وفاق میں باپ اور صوبے میں بیٹے کی حکومت کی بڑی اور سرگرم اتحادی ہے گذشتہ دنوں صوبے کی ٹیل کے ایم پی اے ممتاز چانگ نے پنجاب اسمبلی میں سرائیکی زبان میں خطاب کیا خطاب کیا کیا ایک آپ بیتی اور حقیقت بیتی سنائی اور کچھ عوامی دُکھڑے اور سُلگتے مسائل پیش کیے اپنے حلقے اور عوام کے لیے انہوں نے وزیر اعلی پنجاب اور حکومت سے جو کچھ مانگا اس میں سے اسے کیا کچھ ملتا ہے یا نہیں ملتا یا ہمیشہ کی طرح ردی کی ٹھوکری میں ڈالا جاتا ہے یا تخت لاہور کے فریزر رومز میں محفوظ کرکے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی بیرونی ہوا نہ لگے

یہ بھی پڑھیں : گالی گلوچ کا بڑھتا رجحان

ممتاز چانگ کو کچھ ملے نہ ملے لیکن انہوں نے اپنی طرف سے اسمبلی فورم میں خطاب کے دوران پنجاب سرکار کو اپنی ایک بلڈنگ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت پنجاب پولیس کو ڈونیٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے ممتاز چانگ کی وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کو اس سے بڑی آفر اور اعلان یہ کیا ہے کہ آپ مجھے حلقے کے لیے یونیورسٹی دیں 20 یا 50 جتنے ایکڑ زمین درکار ہے میں دینے کو تیار ہوں میرے حلقے سے کالج 40 کلومیٹر اور یونیورسٹی 70 کلومیٹر دور ہیں یہاں پر مجھے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جس میں حکومت نے ضلع کی معروف سیاسی اسٹیٹ میانوالی قریشیاں کے لیے ایک بوائز اور ایک گرلز کالج منظور کیا تھا اس دور میں مخدوم خسرو بختیار مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور ان کا چھوٹا بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت ایم پی اے اور اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کا چیئرمین تھا قبل ازیں یہ صاحبان ق لیگ کی حکومت و کابینہ کو انجوائے کر چکے تھے ان مخادیم کی سوچ، وژن اور کردار کا اندازہ فرمائیں انہوں نے گرلز کالج کو میانوالی قریشیاں کی بجائے وہاں سے سات کلومیٹر دور گانگا نگر سے بھی دو کلومیٹر آگے چک 64 این پی ایک ویران سی جگہ پر محدود سرکاری رقبے پر بنوایا بوائز کالج کو سرے سے میانوالی قریشیاں سے سہجہ شفٹ کروا دیا سہجہ جس کے دائیں بائیں گیارہ گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹسمابہ اور خان پور میں پہلے سے کالجز موجود تھے حالانکہ ضرورت، میرٹ اور فیزیبیلیٹی کے لحاظ سے میانوالی قریشیاں ہی بہتر تھا یہ بات اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ راقم الحروف نے مخدوم خسرو بختیار کو اس کے گھر میانوالی قریشیاں جا کر یہ ارداس کی تھی کہ خدارا کالج کو میانوالی قریشیاں ہی میں بنائیں اللہ کی دی ہوئی آپ کی وسیع غیر آباد جاگیر پڑی ہے وہاں سے کچھ رقبہ صدقہ جاریہ کے اس کام کے لیے دے دیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں، میں نے اُس وقت انہیں یہ بھی آفر کی تھی کہ آپ کالج سہجہ لے جانے کی بجائے گانگا نگر میں بنوادیں میں اپنے والد حاجی جام بہار گانگا ؒ کے ایصال ثواب کی نیت سے اپنی قیمتی تین ایکڑ زمین کالج کے لیے عطیہ کرنے کو تیار ہوں ان کے چہرے کے تاثرات نے بتایا کہ انہیں میری یہ بات ہرگز اچھی نہیں لگی موصوف نے وہ کالج سہجہ ہائی سکول کھیل کے گراونڈ، لیبارٹری، واش رومز وغیرہ والی چھین کر نان فزیبیلیٹی اور محکمانہ اعتراضات کے باوجود وہاں سوڑ سنگھوڑ کرکے تنگ سی جگہ پر بنوا دیا اُدھر سہجہ ہائی سکول اور کالج دونوں کھیل کے گراؤنڈز سے محروم ہیں اِدھر میانوالی قریشیاں اور گرد و نواح کے لوگ آج بھی بوائز کالج سے محروم ہیں نان پرینئر یعنی کچے کی سائیڈ پر چوک ظاہر پیر سے لیکر جمال دین والی تک درمیان میں کوئی بوائز کالج نہیں یہ درمیانی فاصلہ کم وبیش 65 کلومیٹر بنتا ہے ہم واپس ممتاز چانگ کے خطاب کے اُس پوائنٹ کی طرف آتے ہیں جہاں سے اٍدھر اُدھر ہوئے تھے
وزیراعلی صاحب، ہمیں تعلیم چاہئیے، پینے کے لیے صاف پانی چاہئیے، ہمارا علاقے کا امن و امان واپس لوٹایا جائے لا اینڈ آرڈرز کی پوزیشن کا یہ عالم ہے کہ ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان عام ہو چکے ہیں لوگ خوف کی زندگی جی رہے ہیں میں ایم پی اے ہو کر بھی جہاں محفوظ نہیں ہوں وہاں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ یہ سارا دھندہ دن رات بلا خوف و خطر جاری ہے محترم قارئین کرام، ممتاز چانگ کے اپنے انتخابی حلقے اور علاقے کے عوامی مسائل کو جس دُکھ اور احساس کے ساتھ بیان کیا جن وائٹ کالر جرائم اور لاقانیت کی نشاندہی کی ہے یقینا معاملے کو اگر سنجیدگی سے غیرجانبدارانہ طور پر دیکھیں تو زمینی حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ، گھبیر اور خطرناک ترین ہیں جاگیرداروں کی سرپرستی کے علاوہ پولیس کی کالی بھیڑوں کی سرپرستی بھی اُن گروہوں کو حاصل ہے بعض طاقت ور لوگوں کی پہنچ تو ایوانوں کے اندر موجود بااثر ترین سیاستدانوں تک ہے جس کی وجہ سے اعلی بیورو کریسی تک جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ اندرونی نرم گوشیاں، خرگوشیاں اور شراکت داریاں سب موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ سچ لکھنے اور بولنے والے الٹا نشان عبرت بنا دیئے جاتے ہیں یہ ہمارا بہت بڑا قومی المیہ ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈکیتوں اور اغواء کاروں کے بہت سارے کارندے خود مجبور اور مظلوم ہیں گویا وہ ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے اگر کوئی نکلنا چاہتا ہے تو اسے دھکے دے کر واپس دلدل میں ہی ڈال دیا جاتا ہے کوئی زیادہ بغاوت کرے تو گولیاں اور موت اس کا مقدر بن جاتی ہے اس ظُلمی چکر سے انہیں کوئی نکالنے والا نہیں ہے یہ ایک بڑا قومی المیہ ہے. اس نیٹ ورک اور مرئی و غیر مرئی جال کو کوئی مستقل طور پر اکھاڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ہم ممتاز چانگ کی باتوں کے پیچھے پیچھے چلتے چلتے کافی آگے ایک خوف ناک جزیرے میں نکل گئے ہیں جہاں پر آئین و قانون کی حکومت و راج نہیں، اور لوگوں کی حکومت و راج چلتا ہے میں پہلے بھی اپنے کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ چوروں اور ڈکیتوں کو بھی سُنا جانا چاہئیے انہیں بھی انصاف ملنا چاہئیے
ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد میں ملک کے بڑے بڑے صنعتی یونٹس موجود ہیں جن میں شوگر ملز اور کھاد فیکٹریاں شامل ہیں عوام میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی ان فیکٹریوں نے ہمیشہ عالمی اور نیشنل قوانین کو نظر انداز کیا ہوا ہے کئی درخواستوں کو دفتروں میں گھمایا پھرایا اور ٹرخایاجا رہا ہے جن کے حوالے دینے لیے دو تین علحیدہ کالموں کی ضرورت ہے یہ فیکٹریاں ماحولیاتی اور روزگار دونوں حوالے سے نقصان ہی پہنچایا ہے اور ہنوز نقصان ہی پہنچا رہی ہیں کھاد فیکٹریوں نے تو احمد پور لمہ و گرد نواح کے علاقوں میں بڑی بڑی ٹربائیں لگا کر عوام کو پینے کے صاف پانی سے بھی محروم کر دیا ہے عوام کی چیخ و پکار اور احتجاج کے باوجود کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا یہ فیکٹریاں ایسے طاقت ور اور بدمست لوگوں کی ہیں جن کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہوئے خود قانون اور رکھوالے کانپنے لگ جاتے ہیں ایم پی اے ممتاز چانگ نے ٹلو روڈ پر لگنے والی ایتھانول زہر کی کیمیکل فیکٹری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عوام کی آواز، عوامی خدشات، اور غیر قانونی حیثیت و ہٹ دھری وغیرہ بارے بھی کلمہِ حق بلند کیا ہے یہ ایتھانول فیکٹری بھی غیر قانونی طور پر لگائی جانے والی مشہور زمانہ آر وائی کے شوگر ملز کے مالکان سابق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور سپیکر پنجاب اسمبلی و سابق وزیر اعلی چودھری پرویز الہی کی ہے.سونے پے سہاگہ حکومتی طاقت کی زہر کی فیکٹری کا قیام اور پھر سرکاری زمین کی ویل ولھیٹ قانون کو موم کی ناک سمجھنے والے ان طاقت ور لوگوں سے پوچھنے کے دور کا اغاز کب ہوگا کون روکے گا ایسے غیر قانونی کام کرنے اور غپٹ غپٹاؤں کرنے والے ہاتھوں کو کام کروانے کے لیے وقت کے حکمرانوں کی تعریف یا تھوڑی بہت خوشامد روٹین بلکہ ایک حد تک مجبوری سی بن گئی ہے اور یہ کام چھوٹا بڑا تقریبا ہر شخص کرتا ہے کہتے ہیں کہ کسی جگہ بھی اس کے بغیر گزار مشکل ہے نہ کرو تو پیاسے اور بھوکے مرنے والی بات ہے ممتاز چانگ کے سابق حکومت کے سرائیکی وسیب کے لیے علحیدہ سب سول سیکرٹریٹ اور علیحدہ بجٹ کی شروعات کی بھی تعریف کی یقینا یہ ایک مثبت سوچ و کردار کی علامت ہے موجودہ حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ عمران خان اور عثمان بزدار سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے صوبائی اسمبلی اور سینیٹ سے اپنی ماضی کی پاس کردہ قرار دادوں کو آگے بڑھائیں جنوبی پنجاب کی بجائے صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں لا کر حقیقت پسند، محب وطن اور عوام دوست ہونے کا ثبوت دیں سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور چھبتے ہوئے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں سرائیکی وسیب کے حصے میں اضافہ کریں.ضلع رحیم یارخان اور سرائیکی وسیب کے صنعتی اور سرکاری اداروں میں مقامی لوگوں کو روزگار کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے لیے ترجیحی پالیسیاں اختیار کرکے عوام کو ریلیف دیں تاکہ وہ بھی ترقی و خوشحالی کے ثمرات کا مزہ چکھ سکیں انہیں زہر کھانے اور آلودگی چاٹنے سے بچانا ہے تو یہ اقدامات ضرور اٹھانے ہوں گےسردار ممتاز چانگ کا مطالبہ اپنی جگہ خوب مگر سوال یہ ہے کہ کیا میاں برادران سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ صوبے میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ٹیل سے شروع کریں گے؟

یہ بھی پڑھیں : پولیس کانسٹیبل پر حملہ کرنے والے ملزمان گرفتار موٹر سائیکل اور اسلحہ برآمد مقدمہ درج

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent