Ticker

6/recent/ticker-posts

District Bar President's Notice and Punjab Police Abuse of Social Worker?

ڈسٹرکٹ بار کے صدر کا نوٹس اور سماجی کارکن کے ساتھ پنجاب پولیس کی زیادتی؟

ڈسٹرکٹ بار بہاول نگر کے صدر علی حسین سید ایڈوؤکیٹ نے17 جنوری کو ایک نوٹس نمبری ڈی بی اے نمبر 05/2023 جاری کیا ہے نوٹس سے جوڈیشری کے اندر ملازمین کی ایک انتہائی تلخ حقیقت سامنے آئی ہے اداروں کے اندر اس طرح کے حالات اور رویے ہی دراصل بہت سارے مسائل و مشکلات اور لاقانونیت کی فیکٹریاں ہیں جوڈیشری میں اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ اور پھر اسے برداشت کرنا سراسر زیادتی ہے آئین و قانون اور ملک و عوام کے ساتھ ایسے حالات میں اداروں کی اصلاح اور بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے قانون کی بالادستی، ضابطوں اور اصولوں کی پاسداری، حق اور انصاف کی فراہمی کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے سیشن جج صاحب نے اس نوٹس کے بعد کوئی ایکشن لیا یا نہیں؟ اس بارے ابھی تک کوئی اطلاعات نہیں ہم سمجھتے ہیں ہیں کہ پٹورایوں کی طرح جوڈیشری کے ملازمین و سٹاف کا اپنے اپنے پرائیویٹ منشی رکھنا قانون کے منہ پر سرے عام زناٹے دار تھپڑ ہیں اداروں کے اندر دکانداری کے مترادف ایک عمل ہے آپ بھی وہ نوٹس ملاحظہ فرمائیں

 ُ ُ نوٹس بنام جملہ اہلکاران سیشن جج اینڈ سول کورٹ بہاول نگر آپ جملہ اہلکاران سیش اینڈ سول کورٹس کو بذریعہ نوٹس ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ نے کام کرنے کے لیے پرائیویٹ آدمی رکھے ہوئے ہیں اندر 7 یوم پرائیویٹ آدمیوں کو فارغ کرکے اپنی اپنی سیٹ پر خود کام کریں بصورت دیگر آپ کے خلاف ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بہاول نگر سخت اقدامات اٹھانے پرمجبور ہوگی اور اس بابت کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی. ٗ ٗ

تحریر جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام، بار کے صدر نے نشاندہی کرکے بہت اچھا کیا ہے پرائیویٹ منشی رکھنے والے سٹاف کے خلاف ایکشن لینا سیشن جج صاحب کی اولین ذمہ داری بنتی ہے انصاف کا تقاضا تو یہ ہے جوڈیشری کو اپنی دکان سمجھنے والے ایسے تمام ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دینا چاہئیے لیکن مجھے یقین کہ ملازمین و سٹاف کی شارٹیج کی وجہ سے نظریہ ضرورت اور نرم گوشہ پالیسی کے تحت غیر اعلانیہ خاموش اجازت ملی ہوئی ہوگی کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہسپتالوں سمیت اکثر اداروں میں ملازمین کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے ایک طرف تو ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف بہت سارے محکمہ جات میں اضافی بھرتیاں کرکے مخصوص لوگوں کو نوازا جاتا ہے

یہ بھی پڑھیں : اصلی پیسہ آن لائن کیسے کمایا جائے؟ ایرن ریل منی آن لائن

محترم قارئین کرم، ہمارے ضلع رحیم یار خان کے ساجد آرائیں ایک اچھے سماجی کارکن ہیں میری ان سے کوئی ملاقات تو نہیں لیکن اس سال تباہ کن بارشوں اور روہی سیلاب کے دوران کی سیلاب زدگان کے لیے خدمات کو سوشل میڈیا پر واچ کرتا رہا بعد ازاں مختلف نوعیت کی مستقل سماجی خدمات کو بھی دیکھا بڑے متحرک اور ہمدرد انسان ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوا کرتے.بے سہارا اور غریب لوگوں کے لیے کسی سے مانگنا اور پھر باعزت طریقے سے انہیں گھر جا کر امداد فرام کرنا.سماجی حوالے سے ساجد آرائیں کی سوچ اور مخصوص ایجنڈے پر بھی پھر کسی وقت بات ہوگی.سرے دست ہم ان کے ساتھ ہونے والی پنجاب پولیس کی جانب سے زیادتی کے حوالے ڈی ایس پی ٹریفک اور ڈی پی او رحیم یار خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ شہر اور ضلع کے سماجی کارکنان کوئی نوٹس اور ایکشن لیا اس واقعہ کا نوٹس لیا جائے پنجاب پولیس میں کاـی بھیڑوں کی موجودگی ہو یا پنجاب پولیس کے منفی رویوں اور عوام کے ساتھ زیادتیوں کی داستانیں یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہے ساجد آرائیں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ تو روزمرہ کی روٹین کا واقعہ ہے یہاں تو بڑی بڑی زیادتی ہو جاتی ہیں اور ہو رہی ہیں دراصل ہمارا نظام چھلنی چھلنی ہو چکا ہے اصلاح ہر کوئی چاہتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصلاح کرنے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دینا چاہتا کہاں پر اور کیا ہوا ساجد آرائیں کی تحریری داستان آپ سب کے ساتھ من و عن شیئر کیے دیتے ہیں

 ُ ُ پولیس کی مایوس کن کارکردگی اور ان کے منفی رویوں سے معاشرے کے تقریباً تمام طبقات ہی شاکی رہتے ہیں آج میرے ساتھ ایسا ہی افسوسناک واقعہ وائرلیس پل پر پیش آیا مجھے شیخ ذید ہسپتال سے ایک مریضہ جو لیاقت پور سے ہیں چیک اپ کے لئے تشریف لائی تھیں، کے بھائی کا فون آیا کہ ذرا ہسپتال آئیں آپ کی ضرورت ہے وائرلیس پل پر پہنچا تو زیر نظر تصاویر میں نظر آنے والے دو اہلکار اختر کانسٹیبل اور ابراہیم سب انسپکٹر نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا میرا شروع سے مزاج ہے کہ پولیس کے رکنے پر رک جاتا ہوں نہ کہ انسان بھاگنے کی کوشش کرے قانون کا احترام بہر طور لازم ہے مجھ سے اختر کانسٹیبل نے شناختی کارڈ اور آنر شپ کارڈ مانگا میں نے دونوں چیک کروائے اسی اثناء میں اختر کانسٹیبل نے مجھے پوچھا کہ کیا کاروبار کرتے ہیں تو میں نے بتایا کہ زعفران فروخت کرتا ہوں تو حیرانگی سے پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے میرے احباب کو علم ہے کہ میری جیب میں دو تین ڈبیاں زعفران ہر وقت ہوتی ہے میں نے زعفران نکال کر دکھائی تو اختر کانسٹیبل نے ابراہیم نامی سب انسپکٹر سے کہا سئیں موٹی پارٹی اے زعفران وچیندے ابراہیم سب انسپکٹر نے ایک ڈبیا جو پانچ گرام کی ہوتی ہے اور اسکی مالیت تین ہزار روپے سے زائد ہے پلکتے جھپکتے فوراً پکڑ کر اپنی جیب میں ڈال لی اور ہیلمٹ نہ ہونے کا دو سو روپیہ بھی مجھ سے نقدی وہیں پر لیا اور آدھا گھنٹہ کھڑا کئے رکھا ڈی ایس پی ٹریفک جناب چوہدری اصغر صاحب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ چالان پر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ وہ میری غلطی ہے حالانکہ ساری روڈ بغیر ہیلمٹ کے لوگوں سے بھری پڑی تھی اور یہ دونوں اہلکار بھی وہاں سے ڈیوٹی ختم کرکے بغیر ہیلمٹ ہی موٹر سائیکل پر گئے ہیں بس اتنی گزارش ہے کہ روڈ پر کوئی خاندانی لوگ کھڑے کیا کریں ایک سب انسپکٹر دو تین ہزار کا ٹیکہ لگائے تو یہ پنجاب پولیس کی بے عزتی ہے کیونکہ پولیس تو ہمیشہ وڈے کام ڈالتی ہے اور اس ایس آئی ابراہیم کا پیٹ چیک کریں اسکی پینٹ کا بٹن بند نہیں ہوسکتا حرام کھا کھا کے پھٹنے والا ہے یہ زعفران کہاں انڈیلے گا باقی میں ان شاءاللہ سوموار کو قانونی کاروائی بھی ضرور کروں گا تاکہ ان دونوں سے ملاقات ہوتی رہے باقی عوام بھی ان دو اہلکاروں سے محتاط رہے کہ یہ فورا آپکے سامان پر ہاتھ ڈالتے ہیں

مسٹر ساجد آرائیں آپ تو قسمت سے ٹریفک پولیس والوں کے ہاتھ لگے ہوں گے رحیم یار خان ٹریفک پولیس تھلی روڈ، امین گڑھ روڈ، مئو مبارک روڈ یا منٹھار سائیڈ وغیرہ کے راستوں سے شہر میں داخل ہونے والے دیہاتیوں کے ساتھ یہ پولیس جو ناروا سلوک اور لوٹ مار کرتی ہے آپ کبھی صبح کے وقت جا کر وہاں صورت حال ملاحظہ فرمائیں لوگ روزانہ کی بنیاد پر خاموشی سے لُٹتے ہیں مجھے یقین ہے کہ ساجد آرائیں کی کسی کاروائی سے قبل ڈی پی او رحیم یار خان اختر فاروق جوکہ مثبت سوچ اور اچھی شہرت کے حامل پولیس آفیسر ہیں وہ سماجی کارکن کو اپنے دفتر بلا کر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا فوری ازالہ کردیں گے اور متعلقہ ذمہ دار پولیس ملازمین کے خلاف بھی ضرور محکمانہ کاروائی کریں گے

 یہ بھی پڑھیں : خواب میں جانور دیکھنے کی تعبیر 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent