Ticker

6/recent/ticker-posts

مزدور کسان سے بھٹو کا رشتہ

Bhutto's relationship with the laboring farmer

تحریر: نوابزادہ افتخار احمد خان

بھٹو کہتے تھے میں ہر گھر میں رہتاہوں جس گھر کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے، جناب بھٹو صاحب نے جو سیاست کی دہلیز پر قدم رکھا تھا تو اس وقت ملک میں ہر سطح پر اصلاحات کی ضرورت تھی ملک نیا نیا بنا تھا جمہوریت بھی پروان چڑھ رہی تھی جناب بانی پاکستان کے بعد ان کے مخلص ساتھی قائد ملت لیاقت علی خان بھی ایک عالمی سازش کے تحت قتل کیے جاچکے تھے یہ وہ وقت جو ملک کو سنبھالنے کے لیے لیڈر شپ نے آگے بڑھنا تھا صنعت اور زراعت کو بھی ترقی دینا تھی لیکن صنعت کا پہیہ چلانے اور کھیتوں میں ہل اسی وقت چل سکتا تھا کہ جب ملک کا مزدور اور کسان، اور محنت کش طبقہ اپنی محنت کا پھل پانے کے لیے پر یقین ہوتا، بھٹو صاحب اس ملک کے عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر سیاست کی پر خار وادی میں داخل ہوئے تھے جب انہیں عوام نے ووٹ کی طاقت سے اقتدار دلایا تو وہ اس ملک کے محنت کش،مزدور اور کسان  کے صنعتی ترقی کے لیے لیبر پالیسی اور زرعی پالیسی لے کر آئے، مزدور کو ملازمت کا تحفظ دیا، اس کے بچوں کے لیے میٹرک تک تعلیم مفت کی، اس کی بچیوں کی سادی کے لیے جہیز فنڈ دینے کا اعلان کیا پاکستان میں مزدور، کسان اور محنت کشوں کے لیے پر کشش مراعات پہلی بار بھٹو صاحب لائے یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میرے شہید قائد کے ذہن کا حسن عکاسی یوم مئی ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو بچپن سے غریب کا درد سینے میں رکھتے تھے ان کی والدہ نے ان کی تربیت کی اور غریبوں سے محبت کا سبق دیا،جب ذوالفقارعلی بھٹو اقتدار میں آئے تو لیبر پالیسی ترتیب دی جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی سے نہیں دی گئی تھی اور یکم مئی کو لیبر ڈے کے نام سے منسوب کیا گیا تاکہ قوم کو بتایا جائے کہ مزدورسے محبت، ہمدردی کو قومی جذبہ کے طور پر منائے بھٹو شہید کے بعد آج تک یکم مئی اب ماضی کی طرح نہیں منائی جاتی آج کا مزدور سڑکوں پر کنارے بیٹھا ہوا روزگار کی تلاش میں ہے اسے پناہ گاہوں میں بھی پناہ نہیں مل رہی ہے اس کے لیے آج نہ چھٹی ہے اور نہ روزگار آج ملک کا مزدور طبقہ اپنا پیٹ پالنے کیلئے سڑکوں پر اپنا رزق تلاش کرتا ہے اور اپنے حق سے ناواقف ہے، حکومت نے اسے پہچان کیا دینی تھی اس سے روزگار ہی چھین لیا اور اس کے ہاتھوں میں روزگار کی ساری لکیریں ہی مٹا ڈالی ہیں آج غریبوں مزدوروں کی حالت زار اس حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ یوم مئی منا کر ان کی محرومیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے  پاکستان میں اس وقت لیبر کی شرح 57.2 ملین ہے جس میں 43 فیصد لیبر زراعت سے 20.3 فیصد صنعتی شعبے میں اور 36.6 فیصد مختلف جگہوں پر خدمات سرانجام دے رہا ہے جبکہ گھروں، ہوٹلوں، بھٹوں پر کام کرنے والوں کی کوئی درست اور قابل اعتبار رپورٹ موجود نہیں ہے سڑکوں پر اشیاء فروخت کرنے والے اور گلی محلوں میں مختلف سامان فروخت کرنے والوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے

یہ بھی پڑھیں: اڑنے کی تعبیر

اور اس طرح پاکستان دنیا میں 10 ویں نمبر پر ہے جبکہ ہمارا مزدور مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں کام کر رہا ہے مگر سفارت کانے اس کی  پشت بانی نہیں کر رہے پاکستان میں ایک مزدور کی تنخواہ  سترہ ہزار مقرر کی گئی ہے جس سے خاندان کی پرورش کیسے ممکن ہے۔ شہید بھٹو نے 1973ء کے آئین میں مزدوروں کے حقوق کے بارے میں وضح پالیسی دی اس سے قبل بھی پالیسیاں بنائی گئیں مگر صرف کاغذات کی حد تک جبکہ 1973 ء کے آئین کے مطابق پاکستان میں مزدور کو میڈیکل سہولیات بھی دی گئی اور ان کے بچوں کاتعلیم کے بارے میں بھی بھی پالیسی وضح کی گئی ہے کہتی ہوں آج حکومتیں یکم مئی کو صرف مزدوروں کے حقوق کے دن کو منانے کی حد تک محدود نہ کرے بلکہ عملی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ جو 1973ء کے آئین میں حاصل ہے۔ مزدور کو روز مرہ کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں جس سے انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام مل سکے۔ آج کل مزدور طبقہ زیادہ مشکل حالات سے دوچار ہے۔ کم سے کم عمران حکومت مزدوروں کو میڈیکل کی سہولیات دے تاکہ وہ موجودہ حالات کا مقابلہ کرسکیں یہ موجودہ حکومت کی ہیلتھ پالیسی کے تحت مزدوروں کو ٹیسٹ اور ادویات فراہم کرے اس طرح یکم مئی کا مقصد پورا ہوگا۔یکم مئی 1886ء کی ایک دلخراش داستان کہ جب امریکی ریاست شکاگو کی سڑکوں پر محنت کشوں نے اپنے جائز مطالبات سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکر لی اور خود کو اجتماعی مفاد پر قربان کر کے تاریخ کے اوراق میں زندہ و تابندہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: معاف کردیا کریں

شکاگو کے جانثاروں کی اس سرخ جدوجہد کو پوری دنیا یکم مئی: ”انٹرنیشنل ورکرز ڈے“ کے طور پر مناتی ہے۔ آئی ایل او کے مطابق دنیا میں ہر سال 2.3ارب محنت کش مرد اور عورتیں کام سے متعلق حادثات اور بیماریوں کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ ان میں اندازاً 3لاکھ 60ہزار اموات جان لیوا حادثات کی وجہ سے اور تقریباً 1.95ملین اموات کام سے متعلق مہلک بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ تعداد بھی حقیقی صورتحال سے واضح نہیں کیونکہ بہت سارے حادثات اور بیماریوں کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوتی پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی 1972ء میں تشکیل دی گئی مگر افسوس آج اس اہم سنگ میل کے باوجود سرمایہ داری نظام کے باعث مزدور طبقہ تاحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ پاکستان میں 100سے 90فیصد مزدور مضرِ صحت ماحول میں کام کرتے ہیں انہیں جبری مشقت سمیت جسمانی و نفسیاتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر فیکٹریوں کی عمارتیں پرانی و بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ برسات کے موسم میں بعض فیکٹریوں کی چھتیں گرنے اور مزدوروں کو کرنٹ لگنے سے ان کی اموات واقع ہو جاتی ہیں کچھ مزدور مالکان کی سیفٹی قوانین سے متعلق عاقبت نا اندیشی سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ زخم انہیں مستقبل اپاہج بنا دیتا ہے فیکٹریوں کے اندر صفائی ستھرائی کا کوئی انصرام نہیں۔ صاف پانی تو دور کی بات، پانی تک دستیاب نہیں ہوتا پاکستان میں مزدور یونین سازی کے عمل میں فیکٹری مالکان کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیکٹری مالکان خسارہ تو برداشت کر لیتے ہیں مگر ٹریڈ یونین ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مزدور جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں انہیں نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے آئی او ایل کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیداہونے والے معاشی بحران سے لیبر مارکیٹ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے توثیق کی ہے کہ کورونا سے ڈھائی کروڑ افراد بے روزگار ہوں گے

موجودہ صورتحال ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب دیہاڑی دار مزدور توجہ کے منتظر ہیں بے روزگاری سے اِنکے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ہاتھوں میں چھینی، ہتھوڑی، ڈرل مشین، پینٹ برش پکڑے، بے بسی کی تصویر بنے، شاہراہوں، چوراہوں پر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ مزدوروں کے علاوہ، چنے مکئی بیچنے والا، سکول کے باہر چھابڑی والا، موچی، پارکس کے باہر دال، قہوہ، پاپڑ بیچنے والے، مداری یہ سب کس فہرست میں آتے ہیں۔ ان کے حقوق کا تحفظ کون کرے گا؟ بہر کیف حکومت کو چاہیے کہ مجاز اتھارٹی بنائے جو فیکٹریوں میں حادثات کی روک تھام کیلئے ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین بنا کر ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ فیکٹریوں کا سروے کیا جائے اور معاوضہ کم دینے والوں کیخلاف چالان کیے جائیں اسکے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے تاکہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی ضمانت مل سکے

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

مزدور کسان سے بھٹو کا رشتہ

Post a Comment

1 Comments

click Here

Recent