Ticker

6/recent/ticker-posts

Professor Shafiq Raja is a poet of love

پروفیسر شفیق راجہ محبت کا شاعر
میں تیرا نام لکھوں بار بار کاغذ پر
میں ورد دل میں کروں اور شمار کاغذ پر
کچھ ایسی بات تو یے ورنہ اس طرح لوگو
نظر نہ آتا کبھی اتنا پیار کاغذ پر
آزادکشمیر کے اردو ادب میں ایک تابندہ نام نامور شاعر ادیب مصور خطاط نثرنگار بہترین منتظم سرپرست اعلی جموں کشمیر طلوع ادب  پروفیسر شفیق راجہ کا ہے آپ کی شخصیت کی کئ جہات ہیں علمی و ادبی دنیا کے بےتاج بادشاہ ، منفرد اسلوب کی حامل شخصیت، کشمیر کی پہچان استاد محترم پروفیسر شفیق راجہ 4 فروری 1952ء کو پیدا ہوئے آپ کا تعلق علمی گھرانے سے تھا جس وجہ سے ابتدائی تعلیم گھر  ہی حاصل کی پانچویں جماعت کے طالب علم  تھے تو قرآن و حدیث کی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کی آٹھویں جماعت میں پونچھ ڈویژن میں دوسری پوزیشن حاصل کی 1967ء میں میٹرک کا امتحان اعزازی نمبرات سے پاس کیا پھر 1969ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا انٹرمیڈیٹ کے دوران میں اردو شاعری میں طبع آزمائی کی سپورٹس میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور نمایاں بھی رہے آپ نے بی اے ، سی ٹی ، بی ایڈ ، ایم اے اردو کا امتحان اعزازی نمبرات سے پاس کیا 1970ء میں اٹھارہ برس کی عمر میں  ڈرائنگ  ٹیچر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے جہاں طلبہ اور ساری سوسائٹی نے " نکے استاد " کے نام سے پکارا پروفیسر شفیق راجہ نے ساٹھ کی دھائی کے اواخر سے شاعری کا آغاز کیا اس عہد کا ایک شعر ملاحظہ کریں

افسردہ جیسے موسم سرما کی شام ہو

رہتا ہے میری صبح کا منظر اسی طرح

 

ازقلم شبیر احمد ڈار

شفیق راجہ صاحب آزاد کشمیر کی فعال انجمن طلوع ادب کے صدرنشین کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور بہت سے شعرا اور لکھاری اس پلیٹ فارم سے آپ کی سرپرستی میں ابھر کر ادبی منظرنامے پر سامنے آرہے ہیں آپ کی شاعری فکری و فنی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے آپ کے  کلام میں ندرت و تازگی کا احساس ملتا ہے بقول پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ان کے کلام میں فکر کی ندرت بھی ہے اور اظہار کی دلآویزی بھی شاعری کی فکری استعداد کو وسیع مطالعے نے جلابخشی ہے ۔قدیم و جدید شعری اسالیب سے بخوبی آگاہ ہیں روایت سے بغاوت نہ کرتے ہوئے نئے زاویوں کو اپناتے ہیں معاشی ، معاشرتی ناہمواریوں اور اخلاقی پستی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں انہیں سنجیدہ اور طنزیہ پیرائے میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ فن مجروح نہیں ہوتا۔شاعرانہ وسائل بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہیں ۔" آپ کے ادبی خدمات اور شخصیت کے متعلق پروفیسر وجاہت حسین گردیزی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: 

 پروفیسر شفیق راجہ کا فکری سفر جو " میں حرف حرف سمیٹوں "میں حمد کی شان جل جلالہ سے شروع ہوا تھا عشق رسول کی نوربکھیرتی وادی میں اشک فشانی کرتا " نعت کے سفر" میں ظہور پذیر ہوا۔" عشق دم جبرئیل" اس سفر کی وہ فکری منزل ہے جہاں یہ سفر حقائق کی جانب گامزن ہوکر یقین کی سیڑھی پر پہنچتا ہے۔ " کدل " اور " لفظ کا کاجل" ذات کے فکری سفر کا غازہ بن کر یقین کو پختہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : خواب میں جسم دیکھنے کی تعبیر

یہ پروفیسر شفیق راجہ کی زندگی کا صرف ادبی پہلو ہے موسیقی، مصوری، خطاطی ،جسے فنون ، تاریخ ، جغرافیہ ، اسلامیات، قران و حدیث اور انساب کا گہرا مطالعہ ان کی شخصیت کو متوازن بناتا ہے ہاکی فٹ بال کرکٹ اور بیڈمنٹن کے بہترین کھلاڑی ، ایک بہترین گلوکار ، باذوق و پرتاثیر مقرر غرض ان کی شخصیت کی کئی جہات ہیں یقینا آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ کی شعری و نثری تصانیف ادب میں انمول تحفہ ہیں امید واثق ہے استاد محترم اپنی تخلیقات سے اردو ادب کے دامن کو مزید وسعت دے کر اسے منور کریں گے اللہ پاک ان کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے آپ کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ملاحظہ کریں

تو وجہ خلائق عالم ہے من بعداللہ معظم ہے 

ترا نام ہی اسم اعظم ہے تری شان اعلی حسبی

تمام حرف و بیاں حمد و شکر  تیرے لیے 

تو سب جہانوں کا پروردگار عز و جمال

مناجات :

رب ذوالجلال کے حضور

تخلیق کائنات کی ہیں وجہ اولیں 

وہ سید جہان ہیں ، آقائے دو جہاں 

یہ آپ ہی کی ذات مبارک کا ہے سبب

آباد گلستان ہیں ، آقائے دو جہاں


نظم : نعت

کہیں ان سا اعلیٰ  کمال نہیں 

نہیں ان سا حسن و جمال نہیں 

کوئی ان سا خوب خصال نہیں 

کوئی ان کے مثل مثال نہیں 

پڑھیں سارے ان پر درود و سلام 


نظم : نعت

جب مرا آجائے پیغام اجل 

تب زباں پر ہو مری صلو علیہ

وہ مری بخشش کو کافی ہیں شفیق

میں ہوں جن کا امتی صلو علیہ 


نظم : عید میلادالنبیﷺ

سمجھ سکا ہے جو کوئی کبھی مقام حسینؓ

یقین کرو کہ اسی دم ہوا غلام حسینؓ

نہیں ہے تذکرہ شاہ کچھ دنوں پر محیط

 ازل سے تا بہ ابد ذکر شاہ ، نام حسینؓ

منقبت


 گلشن زندگی میں بہار آگئی دیکھیے انبیاء کا امام آگیا 

زنگ سارے دلوں کا اترتا گیا جب وہ محمود و خیرالانام آگیا


مرے خلوص مری بے ریا محبت سے

صراط جاں کو مری جاں اجال کر رکھنا


میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے آوں گا 

 تم اپنے دل سے عدو کو نکال کر رکھنا


ان کہی بات کہی ہے سو یہی کافی ہے

 جھوٹ ہے، سچ ہے سو یہی کافی ہے


گو ترا نام لبوں تک نہیں لانا ممکن

دل میں تصویر تری ہے سو یہی کافی ہے


مسکراہٹ ہو تبسم ہو حیا ہو کہ غضب

 ہر ادا اچھی لگی ہے سو یہی کافی ہے


سب جسم امانت اور جانیں انمول عطا ہیں مالک کی 

سب آدم زادوں کو میں نے حیوان سمجھنا چھوڑ دیا


معصوم لہو کے پیاسے ہیں جو خون کی ہولی کھیلتے ہیں 

ان خون آشام درندوں کو انسان سمجھنا چھوڑ دیا

میں اک کرن ہوں اندھیروں کو خوف ہے مجھ سے 

میں اک یاد ہوں ، سب کے دلوں میں رہتا ہوں 

گلوں کی طرح ہوا میں بکھر گیا ہوں مگر 

مثال خوشبو فضاؤں پہ راج کرتا ہوں


اب سے پہلے تھا عجب میرے وطن کا منظر

 نادہندوں پہ قرض خواہوں پہ پڑی تھی نظر

 کچھ حکومت کی طرف کچھ تھے مخالف لیڈر

لے گئے لوٹ کے سرمایہ وطن سے باہر 

سب صنعتکار و زمیندار و وزیر ایک ہوئے

جب حوالات میں پہنچے تو سبھی نیک ہوئے 


نظم : شکوہ جدید

مٹ گئیں سب بستیوں کی بستیاں ملبے تلے

دب گئے سب قہقہے ، سب شوخیاں ملبے تلے

کتنے معصوموں کی چیخیں دب گیاں ملبے تلے 

تختیاں ، بستے ، کتابیں ، کاپیاں ملبے تلے 

مل رہے ہیں آج تک جن کے نشان ملبے تلے 

مٹ گئیں سب بستیوں کی بستیاں ملبے تلے 


نظم : زلزلہ اور ہم

بے عقل ہے جو باڑے میں جا پھونکتا ہے خاک

دنیا جو دیکھنی ہے تو لنڈا بازار دیکھ


مانا کے تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا منہ نہ دیکھ مرا کاروبار دیکھ


جتنی تھی جنت میں حوریں مولوی سب لے اڑے

میں بچارا مفت میں مارا گیا میں کیا کروں


جو رات سو نہیں پاتا ہے روشنی کے بغیر 

بتاو گہرے اندھیرے میں کیسے اترے گا


آنکھوں میں کٹ گئی ہے مری زندگی تمام 

پل بھر کو اس کی یاد نے سونے نہیں دیا


بستی میں سب چاند کو دیکھنے نکلے تھے


میں نے چھت پر چاند کا سایہ دیکھ لیا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent